گمشدہ طالب علم ماجد بلوچ – سازین بلوچ

198

گمشدہ طالب علم ماجد بلوچ

تحریر: سازین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں کئی دہائیوں سے جاری شورش کی وجہ سے بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے جہاں دنیا کے آنکھوں کے سامنے اوجھل ایسے بھیانک واقعات رونما ہو رہے ہیں جس کا گمان کرنا بھی خوفناک ہے بلوچستان ایک سلگتا آگ بنا دیا گیا ہے جس کے زد سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، یہاں بچے اور خواتین سے لیکر ضعیف بزرگ بھی جھلسا دیے جا رہے ہیں چونکہ نوجوان قوموں کا ایک ایسا طبقہ ہوتا ہے جن کو سب سے زیادہ تندرست اور جاندار سمجھا جاتا ہے۔

اب جبکہ ایسی آگ لگا دی گئی ہے تو یہاں نوجوانوں کا محفوظ رہنا قدرے ممکن نہیں ہے بلوچستان بھی وہ زمین ہے جہاں کے نوجوان اس جاری شورش کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور خاص کر وہ نوجوان جنہوں نے بکریوں کو چرانے کے بدلے یونیورسٹیوں کا رخ کیا جنہوں بندوق کے بجائے قلم اور کتاب کی طرف رجوع کیا جنہوں نے کتابوں سے دوستی شروع کی لیکن بلوچ نوجوان اس بات کا اندازہ لگانے میں غلط ثابت ہوئے کہ یہ ایٹمی طاقت ریاست کتاب اور قلم سے بندوق سے زیادہ ڈرتا ہے جنہوں نے بھی قلم اٹھایا بات کرنا سیکھا لکھنا بولنا کہنا سیکھا جنہوں نے سوچنے فکر اور خیال کرنا شروع کیا، جنہوں نے سب کچھ دیکھا اور سمجھا اُن میں سے زیادہ تر نوجوان ریاستی اہلکاروں کے ہتھے چڑھ گئے اور کچھ نوجوان بس نوجوانی اور کتاب خوانی کی وجہ سے زندانوں کے نظر ہو گئے۔ اب نوجوان اس بات کو سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ ریاست ایک کتاب اور قلم دوست سے کیوں خوفزدہ ہے؟ کیا قلم اور کتاب ریاست کے وجود کیلئے خطرے ہیں اور ایسے میں آج ریاست نے ٹھان لیا ہے کہ بلوچستان میں ہر بلوچ نوجوان جو کتابوں سے دوستی شروع کرے گا جو کتابوں سے وابستگی کا اظہار کرے گا جو اپنے بحث و مباحث میں چے گویرا ، گاندھی ، فیڈل ہوچی منہ، زن زو، اسپارٹکس،مارکس، جیولئیس فیوچک، لینن، ٹراٹسکی، اور خیر بخش جیسے سوشلسٹ اور نیشنلسٹ رہبروں کا ذکر کرے گا وہ لائق گمشدگی ہے اور گمشدہ افراد کے لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔

آج جس نوجوان کی گمشدگی کا ذکر میں کر رہا ہوں یہ ماجد بلوچ ہیں ، ماجد بلوچ بلوچستان کے تاریخی علاقے قلات سے تعلق رکھتے ہیں ، ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی اور بلوچستان یونیورسٹی کے ان گنے چنے طالب علموں میں شامل تھا جنہوں نے کبھی بھی اپنے کلاسز نہیں چھوڑے ، اپنی آداب و اخلاق کی وجہ سے وہ اپنے سرکل کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ پسند کئے جانے والا نوجوان تھا اساتذہ سے لیکر عام طلبہ ہمیشہ ماجد کو ایک بہترین دوست اور طلبہ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، لیکن ماجد بھی مجرم تھا ایک خطرناک مجرم وہ جرم جو جیولئس فیوچک نے نازی فوج کے خلاف نہیں کیا تھا وہ جرم جو بھگت سنگھ نے انگریزوں کے خلاف نہیں کیا تھا، وہ جرم جو آج پہاڑوں میں موجود ہزاروں بلوچ نوجوان نہیں کر رہے ہیں وہ جرم بندوق اور تشدد کے بدلے کتاب اور قلم سے دوستی ہے بلوچستان میں اس جرم کی سزا اغوا اور مسخ لاشوں کی صورت میں ملتی ہے ۔

بلوچستان میں اس جرم کی سزا سالہا سال زندانوں کا قید ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک بلوچ نوجوان کا بندوق اٹھا کر لڑنا ریاست کیلئے اتنا خطرہ نہیں ہوتا جتنا خطرہ ایک نوجوان کا علم و تعلیم کے شمع کو جلانے کی کوشش ہوتا ہے، ماجد جیسے کتنے شمع جلنے سے پہلے ریاست نے بجھا دیئے ہیں اس کا علم صرف بلوچ رکھتے ہیں ، شاید ہی بلوچستان میں ایسا کوئی خوش نصیب گھر ہوگا جہاں سے ان کا کوئی لاپتہ نہیں ہے یا لاپتہ کرکے مسخ شدہ لاش نہیں پھینکا گیا ہے۔

دوسروں کی طرح میرے ذہن میں بھی کئی سو سوالات ہیں کہ آیا ایک ریاست جو اپنے آپ کو بھارت سے طاقت ور سمجھتا ہے جو اپنے ایجنسی کو دنیا کا نمبر ون ایجنسی سمجھتا ہے جو سات لاکھ کا فوج رکھتا ہے آیا وہ ایک طالب علم سے کیوں خوفزدہ ہے؟ ماجد کو کیوں اور کس بنیاد پر اٹھایا گیا ہے، کیا وہ ایک باغی ہے(کیا باغی سالہا سال اپنے یونیورسٹیوں میں ریگولر قلابازی کھاتے ہیں )، کیا جرم یہی تو نہیں کہ بس وہ ایک بلوچ ہے جنہوں نے پڑھائی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے جرم کیا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب پاکستان کی ریاست ایجنسی اور فوج کے پاس ہے۔

عجیب ہے کہ یہی ریاست کشمیر میں ہندوستانی فوجیوں کی ظلم و جبر اور قانونی طور پر حراست میں لئے گئے لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا تو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مذمت کرتا ہے جبکہ ان کی اپنے سیکیورٹی ادارے جو براہے راست بلوچستان میں انسانی حقوق کے سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں لوگوں کی جبری گمشدگیوں میں شریک جرم ہیں ان جرائم پر ان کو سوال جواب نہیں کیا جاتا۔

ماجد بلوچ جیسے ہزاروں نوجوان زندانوں میں قید رہے ہیں اور ہیں ان ریاستی عدالتوں کو چاہیے کہ ماجد سمیت اپنی خود کی آزادی کیلئے آواز اٹھائیں کیونکہ یہاں انسانوں کے ساتھ ادارے بھی گمشدہ اور قید ہیں جو قانون کے بجائے سرکاری طاقت ور اداروں کے سائے تلے کام کر رہے ہیں ماجد بلوچ کی گمشدگی سنگین انسانی حقوق کی پامالی اور جرائم ہے ماجد کی بازیابی کیلئے سب طلباء، دانشور، سیول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنان طلباء رائٹس پر یقین رکھنے والے لوگ سمیت علمی لوگوں کو آواز اٹھانا چاہیے تاکہ ایک بےگناہ طلباء زندانوں کے بجائے یونیورسٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔