کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج

110

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3730 دن مکمل ہوگئے۔ آواران کے علاقے جھاؤ سے علی محمد بلوچ، شہک بلوچ جبکہ بی ایس او کے سابق چیئرمین مہم خان بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

بی ایس او کے سابق چیئرمین و سابق سینیٹر مہم خان بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ بلوچ آج بھی غیر محفوظ ہے، کئی سالوں سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ سرے عام جاری ہے، اب لاپتہ افراد کی تعداد اتنی ہوچکی ہے کہ اصل تعداد کو بتانا بھی مشکل ہوچکا ہے لیکن پھر بھی ماما قدیر لاپتہ افراد کے اعداد شمار کو جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ اعداد و شمار صرف ماما قدیر کے پاس نہیں رکھے گئے بلکہ انسانی حقوق کے علاقائی و بین الاقوامی اداروں تک یہ فہرستیں پہنچائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں کچھ لوگوں کو چھوڑ دیا گیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک شخص کو چھوڑا جاتا ہے تو تین کو لاپتہ کیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ آج بھی بلوچ خواتین وی بی ایم پی کے کیمپ میں آکر اپنی فریاد سنا رہے ہیں، بحیثیت سیاسی طالب علم کے میں ان خواتین کے آواز کو بلوچستان کی آواز سمجھتا ہوں لہٰذا گمشدگیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور بلوچستان کے مسئلے کو ٹیبل ٹاک کے تحت حل کرنا چاہیے اگر یہ تسلسل جاری رہتا ہے تو ہم اس کا ذمہ دار اسلام آباد کو سمجھتے ہیں۔

اس موقعے پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اقدار سے یکسر محروم دشمن کو چونکہ صرف بلوچ نہیں بلکہ پوری انسانیت سے بیر ہے، بلوچ بارے وہ حیوانیت میں اتنے آگے جاچکا ہے کہ روز ایک سے بڑھ کر ایک نوجوان فرعون دوراں کے ہاتھوں زندانوں میں قتل کیے جارہے ہیں، ان کے اعضاء نکالے جارہے ہیں، روز جوانوں کے دمکتے کرن درندوں کے ہاتھوں بے رحمانہ تشدد سے بجائے جارہے ہیں جبکہ تشدد بھی ایسی کہ لفظ تشدد خود شرم سے سر اٹھا نہیں پاتا ہے، شام شفق اور بیابانوں کے سانے ایسے مظالم پر چیخ رہے ہیں اور بلوچ کی صداؤں پر اقوام عالم کو کان دھرنے کیلئے پکار رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس خون سے جو پھول کھلیں گے وہ محض بلوچ کے لیے نہیں بلکہ ان کی خوشبوں سے عالم جہاں کی دل و دماغ معطر ہوں گے۔ اس لیے بلوچ سمیت پوری انسانی کو ان قربانیوں پر سربلند کرنا چاہیے، فسطائیت کے سب سے بڑے مرکز کے خلاف جاری پرامن جدوجہد اب محض بلوچ کی ذمہ داری نہیں، اس خطے کی پائیدار امن اور خوشحالی و ترقی کسی ایٹمی چھتری کے بغیر، انسان کش نظام سے پاک پالیسیوں سے ممکن ہے۔ دشمن ہزارہا نت نئے طریقے اپنا چکا ہے مگر بلوچ کے حوصلے ہیں کہ روز افزوں نئی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں مگر انسانیت کی تلاش آج بھی جاری ہے۔