کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3731 دن مکمل

194

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3731 دن مکمل ہوگئے، انسانی حقوق کے کارکن حمیدہ نور اور حوران بلوچ سمیت دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پاکستان بلوچ قوم کی نسل کشی اور غیرت و ننگ کو تار تار کرنے کیلئے نئے منصوبوں کے ساتھ مزید تیزی لائے گا اور نئے نام نہاد پارلیمانی قوم پرست حکومت کا قیام بھی اس سلسلے کا حصہ ہے۔ بلوچ نسل کشی کا اعلامیہ پوری دنیا کے سامنے ہیں جس کی وجہ سے بلوچ قوم کو ریاست کے ساتھ بیرونی سامراجی عزائم کا بھی سامنا ہے آج بھی ہزاروں بلوچ خیر خواہ ریاستی زندانوں میں تاریخ ساز تشدد کا شکار ہیں، سینکڑوں سیاسی کارکنان کے گھروں کو جلایا گیا، لوٹ مار کی گئی اور عورتوں و بچوں کی حرمت کو تار تار کیا گیا تنظیم کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ ریاست کی جانب سے اس سلسلے میں کمی نہیں آئے گی اور اپنی عزائم کو برقرار رکھنے کے لیے وہ بلوچ قوم کی نسل کشی میں تیزی لائے گی مگر تنظیم کے رہنماؤں، لواحقین اور خیر خواہوں کے قدموں میں ریاست پاکستان کی تمام بربریت کے باوجود لرزش نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ آج اندازے کے مطابق بلوچستان کے 85 فیصد حصے میں بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے، ان میں پاکستانی خفیہ ادارے، ڈیتھ اسکواڈ اور فورسز اہلکار ملوث ہے۔ بلوچستان کے پہاڑی، ساحلی، قصباتی اور دور دراز علاقوں میں کاروائی کی جارہی ہے جہاں کافی جانی و مالی نقصانات بھی لوگوں کو اٹھانے پڑے ہیں۔ ریاست مارو اور پھینکو کی پالیسی کے تحت نہتے سیاسی کارکنان، ادیبوں، شاعروں، وکلاء، ڈاکٹر جن کا تعلق انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف رہا ہے انہیں نیم فوجی ادارے فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں نے لاپتہ کرنے کے بعد مہینوں، سالوں اذیت دیکر ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پہاڑوں اور ویرانوں میں پھینک چکی ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ کئی دفعہ پانچ پانچ افراد کی لاشیں ایک ساتھ لیویز و پولیس برآمد کرچکی ہے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے تاہم ان اعداد و شمار میں وہ افراد شامل نہیں جن کومارنے کے بعد نامعلوم مقام پر دفن کردیا گیا ہے۔