کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو3719 دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اس موقعے پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا جولوگ جام آقا میں غلامی کی میٹی زہر پی کر اپنی خودی گنواچکے ہیں وہ قوم کی پکار سنا نہیں کرتے، فرعون وقت کے زندانوں میں مقید فرزندان وطن کی لہو رستے زخموں کا احساس نہیں کرتے، چھلنی لاشیں وصول کرنے والے ماں کے فلک شگاف چیخیں ان کی آرام میں خلل نہیں ڈالتے، ڈرل مشین سینے پر چلتی ہے اور پرامن جدوجہد کے لیے تڑپتے دل کے آر پار ہوتی ہے تو دنیا کی تکلیف دہ درد اٹھتی ہے، کانوں، ناک، منہ میں پگھلائی سیسہ انڈیلی جاتی ہے تو اس کے مقابلے میں موت ایک کھیل معلوم ہوتی ہے اس درد اور آتش کی حدت کا اندازہ غلامی پر مصر بے روح عصری میں نا ممکن ہے۔
کہ جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی، سیاسی کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ، آبادیوں پر یلغار قبضہ گیر ریاستوں کا شیوہ رہے ہیں لیکن جب بلوچ پرامن جدوجہد کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے تو ریاست پاکستان حواس باختہ ہوکر ظلم و جبر کی حدیں پار کرنے لگی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور حراستی قتل کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین نے جمہوری جدوجہد کے تمام ذرائع بروئے کار لارہے ہیں، احتجاجی مظاہروں، ریلیوں، سیمیناروں، عدالتوں اور کمیشنوں میں پیش ہونے کیساتھ طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کے لگانے سے عالمی اداروں کی توجہ بلوچستان کی سنگین صورتحال کی جانب کرانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن آج دنیا میں دہری انسانی حقوق کے نعروں کے پیچھے عالمی اجارہ داری اور مفادات کے تحفظ کے لیے برسرپیکار ہیں جن کی وجہ سے عالمی تنظیمیں انسانی حقوق کا عالمی منشور صرف کاغذوں تک محدود ہوتا جارہا ہے۔