خاران سے فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے صدام بلوچ کو بازیاب کیا جائے – وی بی ایم پی
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3706 دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کیا اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے متعدد قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں جن کی روح سے جبری گمشدگی ایک سنگین جرم قرار دیا جاچکا ہے، 18دسمبر 1992 کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبی کے ایک قرار داد کے تحت ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق جبری گمشدگی کی کوئی بھی کاروائی انسانی وقار کے خلاف ایک سنگین جرم اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوگی جبکہ اس اعلامیہ کے ایک آرٹیکل کے مطابق جبری گمشدگی کی تمام کاروائیاں فوجداری قوانین کے تحت جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی کمیشن برائے انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ کے ماہرین نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ انسانیت کے خلاف منافی عمل ہے، ایسا کوئی عمل ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے دوسری جانب پاکستان دنیا کو بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی اور دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کرکے مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکنے میں مصروف ہے، 2001 سے لیکر اب تک ہزاروں بلوچ فرزندوں کو پاکستانی ادارے بھرے بازار، گھروں، مسافر گاڑیوں اور تعلیمی اداروں سے اٹھاکر غائب کرچکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بزرگوں کی بھی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 2010 سے اب تک ہزاروں تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی ہے جن کا اعتراف ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، کمیشن برائے انسانی حقوق اقوام متحدہ، ایشین ہیومن رائٹس سمیت پاکستان کے عدالتیں اور پارلیمنٹ کرچکے ہیں۔
دریں اثنا گذشتہ دنوں خاران سے جبری طور پر لاپتہ نوجوان صدام بلوچ کی بازیابی کے لیے وی بی ایم پی کی جانب سے اپیل کی گئی ہے۔
صدام بلوچ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ 2 ستمبر 2019 کو صدام بلوچ ولد عبدالستار کو فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے خاران سے گرفتاری کے بعد جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔
واضع رہے صدام 2016 میں بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، اور انہیں ایک ماہ کی جبری گمشدگی کے بعد منظر عام پر لایا گیا تھا۔