کشمیر بنے گا پاکستان اور بلوچستان؟ – الماس بلوچ

839

کشمیر بنے گا پاکستان اور بلوچستان؟

تحریر: الماس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فوجی کیمپ سے وصول ہونے والے سرکاری حکمنامے اور فرمان پر لبیک کرتے ہوئے ضلعی دفترِ تعلیم بلوچستان کے ہر ضلعے میں کانپتے ہوئے جی ہاں! جی ہاں کا رٹ لگاکر جب جمہوریت کم غیر جمہوری اداروں سے آئے ہوئے فون رکھ لیتا ہے تو اپنے دفتر کے توسط سے پلک جھپکتے ہوئے ایک آفیشل مراسلہ بناکر تمام نزدیک اور دور افتادہ اسکولز کے سربراہان کو سختی سے تاکید کرتا ہوا پورے اسٹاپ کے ساتھ کشمیر کے ساتھ منعقدہ یکجہتی ریلی ھَاور کیلئے دیئے گئے وقت اور متعین جگہ پر تشریف لانے کا حکم صادر فرماتا ہے، تو ذیلی اداروں کی کانپتے ہوئے ہاتھ چلنے لگتے ہیں، وہ ایس ڈی ایم جس نے کبھی بچوں کو وائیٹ بورڈ پر کوئی شکل بناکر سمجھایا تک نہیں، پاکستان اور کشمیر کا رنگوں سے بھرا جھنڈوں کا جلدی سے چارٹ تیار کرکے اگلے دن نو بجے روڈ پر چلا جاتاہے جو اسکول جاتے گیارہ بجے کو واپس چلا جاتا ہے۔

ساتھ میں خوبصورتی سے بنایا ہوا چارٹ بڑے لفظوں میں، کشمیر بنے گا پاکستان، Kashmir Deserves independence، کشمیر ویلی کی ناجائز اور غیر قانونی قبضہ نامنظور نامنظور، کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ وغیرہ وغیرہ کے ساتھ اسکولوں کے بچوں کو صبح پہلی گھنٹی میں رخصتی دیکر معاشرے کا سب سے باعزت اور قابلِ احترام استاد سلگتے دھوپ میں سڑکوں پر چارٹ کو سینے پر تان کر معجزانہ اور عجیب کیفیتی روپ اپناتے ہوئے اپنے ماہانہ تنخواہ کیلئے مقتدر کو دیکھتے ہوئے مجبوراً کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے شرمندہ شرمندہ گھر پہنچتے ہی اپنے ضمیر کی ارتھی اتار کر چین کی نیند سو کر زندگی بھر اس فرسودہ نظام اور احمقانہ روایت کو لعنتوں کی ہار میں لپیٹ کر دفن کر دیتاہے۔ بلوچستان کی ماؤں کی پکار کو بھول کر جب یہی لوگ بھاشن بازی کرنے لگتے ہیں تو اسلام کے احکامات اور غیر مسلم کے ڈھائے ہوئے ظلم اسکی تقریر کی تن و زیب بن جاتی ہیں۔ مگر افسوس اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسا تو روز ہوتا آرہا ہے۔ ایسا تو ہر دن ہورہا ہے، پتہ ہی نہیں چلتا ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا کام تعلیم دینا ہوتا ہے کہ کچھ اور، یہاں تک کہ اسکولوں کو کڑی نظر میں رکھتے ہوئے بلوچستان کے کونے کونے سے فوجی بارودی بھائیوں کو اختیار تک حاصل ہے۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی اسکول میں معائنہ کے منطقی ارادے سے شتریف فرما کر استاد کے حرکتِ قلب بند کرنے چلے جاتے ہیں۔ کچھ تو بہت خوشی انہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور کچھ مجبوراً سر نیچے کرتے ہوئے ان کے جانے تک صرف فوجی بُوٹ کو دیکھتے ہی چین کا سانس لیتے ہیں۔ سوال کوئی نہیں کرسکتا کہ ہم کیوں ریلی کرتے پھریں، ہمارا کام تو تعلیم دینا ہوتا ہے۔ بس سب سنتے ہیں اور لبیک لبیک کرتے رہتے، اپنے وقت نکال دیتے ہیں۔

اس قسم کی ڈرامائی اسٹیج سجنے کی وجہ کیا ہو سکتا ہے؟ بلوچستان جو بدقسمتی سے برطانوی حکمرانی سے آزاد ہوتا ہوا آزاد فضا میں آزادانہ ایک خودمختار ریاست کا جھنڈا لہرا رہا تھا تو گن کی نوک پر اس پر پاکستان نے قبضہ کرکے غلام بنایا، تب سے لیکر اب تک وہاں ایک جنگ لڑی جارہی ہے۔ اُس دن سے لیکر آج تک پاکستانی فورسز روز بلوچ بہنوں اور ماوں کے ساتھ بنگالیوں جیسا سلوک کر رہے ہیں، نوجوانوں کو جبری گمشدگیوں کا شکار بناکر ان کے اعضاء نکالے جارہیں، بچوں کو مغوی بناکر والدین سے پیسہ لیا جارہا ہے، فوج کی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ بناکر عام لوگوں کو پریشان، دھمکی اور ٹیکس لیکر الجھن میں ڈالا جارہا ہے۔ لیکن عالمی میڈیا سمیت علاقائی میڈیا بھی زرد صحافت سے باز نہیں اتا۔ فوج اور ریاست کے دیئے ہوئے رپورٹس جامع سمجھتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا بلوچستان میں ہونے والے ہیومن رائٹس پامالیوں کو تشویشناک رپورٹس کو رد کرتے ہوئے میڈیا کے علاوہ عالمی سطح پر پہچانے جانے والے انسانی حقوق کے علمبردار بھی بھٹک سکتے ہیں تو اس سے ایک بات عیان ہے، میڈیا کی چشم پوشی، بلوچ سیاسی قیادت کا بری طرح بکھرا ہوا ڈائسپورا اور بیرونی سطح پر ڈپلومیسی کا فقدان کتنے درجے تک بلوچ مزاحمت کے خلاف ریاستی پروپگنڈہ، پالیسی، نفسیاتی نگرانی اور institutionalized پرو پاکستانی پلاننگ کو کامیابی سے ہمکنار کر رہا ہے۔

چند لوگ بلوچ کیلئے لکھتے ہیں، پڑھتا کوئی نہیں، وہ بلوچ کیلئے سیاست کررہے ہیں، باقی خواہشمند کیلئے جانے کے راستے سب بند ہیں، کچھ مسلح جنگ کررہے ہیں، والدین اپنے بچوں کو بھیجنے کیلئے آمادہ ہی نہیں، کچھ پارلیمانی سیاست میں ٹھیکداری کا رٹ لگا رہیں ہیں، لوگ پھرپور ان کے پیچھے پڑے ہیں اور کچھ گمشدہ، کچھ لاپتہ، کچھ بیرون ممالک میں کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں لیکن یہاں ریاست نے مظلوم قوم کے اساتذہ، ڈاکٹر،ِ بیوروکریٹ، مزدور، کسان، بچے سمیت سب کو ایک بڑی تعداد میں روڈ پر پہلے طاقت کی زور پر نکال کر کشمیریوں کے حق میں نعرہ بازی پر آمادہ کیا تھا اب تو آہستہ آہستہ لوگ خود ہی نکل رہے ہیں۔ حالیہ کشمیر یکجہتی ریلی ھُاور میں پہلی بار بلوچوں کو اپنے پر ہوئے پاکستان کی طرف سے بربریت اور ظلم کا پلڑا کم اور کشمیریوں کا زیادہ لگا جو پاکستان کیلئے ایک پلس پوائنٹ کی مانند ایک مثبت رجحان تصور کیا جاسکتا ہے جو کبھی بھی بلوچ کے مزاحمتی جنگ کے خلاف کھلم کھلا استعمال ہوسکتاہے۔

بلوچستان میں موجود ایجوکیشن ادارے بالخصوص اس سرکاری پروپگنڈہ کو بلوچوں کے قوم پرستانہ سیاست اور مسلح جہد کے خلاف کامیاب ہونے میں بھرپور ساتھ دے رہاہے۔

بچوں کی ذہنیت ایک تو بہت حد تک پرو پاکستان ہوتا چلا جارہاہے اور دوسری بات یہ ہے کہ بلوچ پولٹیکس کے سرچشمہ اور نرسری انہی اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں ہوا کرتے تھے مگر اب لگتا ہے کچھ ہی سال گذارنے کے بعد یہاں سے صرف خالص پاکستانی اور فوج کے مددگار کے علاوہ کچھ ہی نہیں نکلے گا۔

اگر بلوچستان میں بلوچ طلبہ سیاست اس طرح غیر فعال رہی تو ایسے تاریخی حوالے سے قومی زوال کے علاوہ کچھ اور سمجھنا بلوچ کا بچگانہ سوچ اور بیوقوفی ہوگی۔ اور پھر مزید ایسے ریلی اور احتجاجی مظاہروں پر رونے سے پہلے یہ بھی سوچیں کہ بلوچ طلبہ سیاست کہاں موجود ہے، کیا انہی نرسریوں تک اُسکا پہنچ ہے اگر جواب نہیں میں ملا تو پلیز اپنے فیسبکی اشتہارات سے خود کو تسلی دیں۔ اور کشمیر بنے گا پاکستان جیسے ریلیوں پر اپکا تنقید کا حق ہی پیدا نہیں ہوگا ہاں البتہ طلبہ سیاست کا کیا مقام رہا ہے اس زوال میں سب کچھ تاریخ میں لکھا جائے گا، لکھا جارہا ہے اور تاریخ ضرور خود کو دہراتی ہے۔ جب تاریخی حوالے سے سب عیاں ہونگے تو بہت سے چہرے بے نقاب ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔