پی ٹی ایم کی حمایت کی وجہ سے پاکستانی خفیہ ادارے مجھے قتل کرنا چاہتے تھے – گلالئی اسماعیل

500

بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ یافتہ سماجی کارکن گلالئی اسماعیل چار ماہ روپوش رہنے کے بعد امریکہ پہنچ گئی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ ایک مبینہ کل لسٹ میں نام آنے کے بعد، انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

گلالئی اسماعیل رواں سال 23 مئی سے روپوش تھیں۔

چار ماہ کے دوران اپنے پہلے ٹی وی انٹرویو میں گلالئی اسماعیل نے روپوشی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سیکورٹی ایجنسیوں سے بچنے لیے پاکستان کے پانچ مختلف شہروں میں قیام کیا۔

انھوں نے بتایا کہ اپنی پناہ گاہ خفیہ رکھنے کے لیے، میں نے فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی بند کر دیا تھا۔ والدین سے رابطہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ مگر، میں نے لڑنا نہیں چھوڑا۔ میری آواز وقتی طور تو بند ہوئی،مگر وہ ہمیشہ کے لیے میری آواز بند نہ کر سکے۔

بقول ان کے،کسی ایک گھر میں میں نے ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت نہیں گزارا، تاکہ میرے میزبانوں کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ میں برقعہ پہن کر نکلتی تھی۔ کچھ میری قسمت بھی اچھی تھی، کیونکہ کبھی منٹوں تو کبھی گھنٹوں کے فاصلے سے میں پولیس کے چھاپوں سے بچ نکلی۔

عالمی نشریاتی ادارے  سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستان سے نکلنے کا فیصلہ تب کیا جب انہیں پتا چلا کہ ان کا نام ایک ریاستی ادارے کی مبینہ کل لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔

گلالئی نے کہا کہ وہ مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے، مجھے پیغامات ملے تھے کہ مجھے مارنے کا مکمل ارادہ کر لیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر میرے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ میں کوئی بہت بڑی دہشت گرد ہوں، میرا پتہ چلانے کی غرض سے میرے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی ہراساں کیا گیا۔ میرے دوستوں کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا گیا کہ مجھے قتل کیا جائے گا۔

گلالئی اسماعیل کا الزام ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک پشتون تحفظ تحریک کی حمایت کی وجہ سے کیا گیا۔

گلالئی نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ نے 29 مئی کو پاکستانی حکومت کو خط لکھا تھا، جس میں میرا نام ‘کل لسٹ میں شامل ہونے سے متعلق پوچھا گیا۔ پاکستان سے صفائی مانگی گئی جبکہ میری حفاظت سے متعلق بھی خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

گلالئی اسماعیل کہتی ہیں کہ اس سال کے شروع میں انہیں پشاور میں ایک خفیہ ادارے کے دفتر بلایا گیا تھا، جہاں، ان کے بقول، مجھے جان سے مارنے کی دھمکی میرے والد کے سامنے دی گئی۔

انھوں نے اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ میں رہ کر وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائیں گی، اور امن کے لیے کوششیں جاری رکھیں گی۔