وقت کی اہمیت اور حالتِ جنگ ۔ سلمان حمل

481

وقت کی اہمیت اور حالتِ جنگ

سلمان حمل

دی بلوچستان پوسٹ

انسان کی عام زندگی میں وقت کو بہت اہمیت دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ وقت لوٹ کر نہیں آتا۔ مگر یہ سوال اہم ہے کہ وقت کیا ہے اور اسے کیسے استعمال میں لاکر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم وقت کو لے کر آگے بڑھیں پہلے جنگ کے معنی سے بھی واقف ہوں کہ جنگ وہ بلا ہے جو ہر شئے کو اس کی اصل حالات سے بدل کر ہی چھوڑے گا۔ جنگ تباہی ہے، انسانی جانوں کا ضیاع ہے، کُشت و خون کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔ یہ جنگ جس کا ہم حصہ ہیں یقیناً تبدیلی کی جنگ ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس تبدیلی کا رخ کس جانب موڑتے ہیں، صرف آزادی ہی اس جنگ کا حاصل ہے۔ تو میرے خیال میں نہیں اس جنگ کا جو مقصد ہے وہ بوسیدہ سوچوں کو تبدیل کرنے کی جنگ ہے، سماج کو از سر نو تشکیل کی جنگ ہے، بدلنے کی جنگ ہے۔ تو اس جنگ کے دورانیئے میں ہمیں وقت کی اہمیت کو جاننا ہوگا اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا، سخت سے سخت فیصلے کرنے ہونگے۔

اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ وقت ہے کیا؟ اس کی وضاحت کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ ابھی تک بھی ایک معمہ ہے، وقت کی وضاحت سائنس نے کچھ اس طرح کی ہے کہ “دو واقعات کے مابین دورانیئے کو وقت کہتے ہیں” زمین کی سورج کے گرد گردش کو ایک سال کہا گیا جبکہ سیزم کا ایٹم نو ارب بار اپنی حرکت مکمل کرے تو اس دورانیے کو ایک سیکینڈ کہتے ہیں۔ لیکن آج سے سو سال پہلے البرٹ آئن اسٹائن نے ایک نئی تصویر دکھائی کہ ہمارا کل کائنات در اصل زماں و مکاں کی چادر کا مجموعہ ہے۔ یعنی تین جہتیں زماں ہیں، اسپیس ہے، جبکہ چوتھی جہت وقت ہے یعنی کہ ٹائم ہے۔ یعنی ہم فور ڈی کائنات میں رہتے ہیں۔ لیکن چونکہ انسان خود تھری ڈی پر مشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کو چوتھی ڈائمنشن یعنی وقت کا پتہ یا احساس نہیں ہوپاتا لیکن اپنا اثر مکمل چھوڑتا ہے۔ اب یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ تھری ڈی اور فور ڈی کیا ہے؟

اس کو سمجھانے کیلئے کارل سیگن نے یہ مثال دیا ہے کہ فرض کریں زندہ مخلوق ایک صفحے میں قید ہیں اور صفحہ لمبائی او چوڑائی پر مشتمل ہوتا ہے، سو یہ مخلوق دو جہتی دنیا میں قید ہوئے۔ ہم انسان چار جہتی یا تھری ڈی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں جس میں لمبائی چوڑائی اونچائی اور وقت موجود ہے۔ جس وجہ سے ہم چوتھی جہت کو دیکھ نہیں پاتے صرف محسوس کرسکتے ہیں مگر وضاحت نہیں کرسکتے۔ آیا چوتھی جہت واقعی ہے؟ اس متعلق کچھ عرصہ قبل تجربہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ زمین کی سطح پہ وقت کا رفتار آہستہ اور خلا میں تیز ہوتی ہے، زمیں پر سست رفتاری کی وجہ کشش ثقل ہے۔ اب جب ہم زمین پر رہتے ہیں تو یہاں وقت کی رفتار سست ہے، جسے ہم محسوس نہیں کرسکتے جبکہ خلا میں موجود سیٹلائٹس نینو سیکنڈز تک زمین سے رابطے میں ہوتا ہے اور یہ اپنا وقت زمین کے مطابق سیٹ کرتے ہیں ۔ اب ہم بھی اپنے حالات کو کچھ یوں ہی لیں کہ ہم خلا میں موجود ہیں اور ہمیں زمین کےمطابق ٹائمنگ طے کرنا ہے۔ وہ اس لیئے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور دوران جنگ زندگی اور موت کا کوئی خاص فاصلہ نہیں ہوتا۔ آمنے سامنے ہوئے یا مرجائیں یا مریں، تو یہاں ضروری امر یہ ہے کہ ہم اسی مطابق اپنے وقت کا تعین کریں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھریں نہیں، مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کریں، اپنے آنی والے نسلوں کیلئے راہیں متعین کریں۔ آیا وہ بھی اسی طرح جنگ کی چکی میں پِستے جائیں یا ایک آزاد وطن میں زندگی بسر کریں؟ اگر واقعی ہم انہیں آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں وقت کی اہمیت کو جاننا ہوگا اور اپنے آج کے اعمال کو وقت کے ساتھ پرکھنا ہوگا۔

آیا ہمارے آج کے اعمال واقعی وقت سےمطابقت رکھتے ہیں۔ آیا جن حالات سے میدان کارزار میں موجود سرمچار گذر رہے ہیں۔ ان حالات سے دور رہ کر ہمیں انکی کوئی پرواہ ہے بھی یا نہیں؟ آج وقت کا جو تقاضہ ہے ہم اسے پورا کر رہے ہیں یا پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟ آیا آج کے حالات سے ہماری پالیسیاں مطابقت رکھتے ہیں صرف اور صرف جنگی محاذ میں اتحاد کافی ہے یا اس اتحاد کے دیگر پہلو پر مزید کچھ کرنے کی گنجائش ہے۔ سفارتی سطح پر چھوٹے موٹے پروگرامز ریلیاں ریفرنسز کافی ہیں یا ایک قدم آگے جانے کی بھی گنجائش موجود ہے؟ تو میرے خیال میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے جنگی محاذ کو مزید سہولیات دینے ہونگے، صرف اور صرف چھوٹے موٹے فوجی کاروائیوں سے اب کچھ حاصل نہیں ہوگا، اب دشمن کیخلاف سخت سے سخت منصوبہ بندی کرنا ہوگا۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ان کاروائیوں کو روک کر فدائی حملوں میں شدت لائیں بلکہ ان چھوٹے موٹے کاروائیوں کے ساتھ موثر حکمت عملی مربوط طریقہ کار کے ہمراہ پُرتشدد معرکے انجام دینے ہونگے۔ جنگی وسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگا، کیونکہ ہم اس وقت سیٹلائٹ کی طرح خلاء میں محو سفر ہیں اور ہمیں اپنے وقت کا تعین زمین کے حالات کے مطابق کرنا ہوگا۔ صرف خالی خولی دعوؤں مجالس میں طویل مباحث سے کچھ نہیں۔ اب بدلنا ہوگا خود کو، اپنے سوچ کو اپنے طریقہ کار کو۔ اگر بدلنے میں کامیاب ہوئے تو پھر ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم نے وقت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔