لفظ غیر سیاسی بذاتِ خود ایک سیاسی سوال ؟
تحریر : حئی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ لفظ حیرت کی ایک پرچھائی ہے جسے کئی اہلِ دانش نے اسے بہتر انداز میں مختلف تحریروں میں بیان کیا اور اس پہ آجکل اچھی مباحثہ چل رہی ہے ۔
حقیقت میں یہ حیران کن بات ہے جب بھی کسی پڑھے لکھے نوجوان سے بحث و مباحثہ ہو تو وہ اپنے آپ کو غیر سیاسی بناکر بہتر اور فخر محسوس کرتے ہیں۔
مگر حقیقت میں لفظ “سیاسی” کوئی “ٹھپہ” یا کوئی ٹیکہ تو نہیں جسے لگا کر اسکی اشکال کی پہچان کی جائے،
اکثر لوگوں کی ذہنوں میں یہ بات کھٹکتی ہے کہ جو لوگ کسی تنظیم یا پارٹی سے منسلک ہوں وہ سیاسی ہیں لیکن حقائق کی روح اس چیز کو عیاں کرتا ہے کہ یہ وہ نوجوان یا ذی شعور طبقہ ہے جو کسی ظلم و بربریت ، اور جبر کی پہاڑ کو توڑنے کی ہمت اور سچ کی پہچان میں خود کو منواکر سرِ راہ ہوتے ہیں جو موجودہ اور آنے والے نسلوں کو حقائق سے باخبر رکھ کر ایک روشن سماج کا درست سمت کی تعین کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، اور یہی ایک سیاسی ہونے کی پہچان ہے جو ہر اہلِ علم اسے قبول کر کے سیاسی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جوکہ آج فخر کیساتھ میں بھی محسوس کرتا ہوں ۔
یہ ایک سنجیدہ ڈسکشن ہے، ہمارا واسطہ روزانہ ایک غیر سیاسی سے پڑتا ہے جو وہ خود بھی نہیں جانتا ، مگر مجھ جیسے کئی سیاسی دوست اس چیز کا سامنا کرتے ہیں اور اس لفظ کو سنتے ہی کئی بار شدید غصے کا انبار کھڑا ہوتا ہے اور ماتھے میں کئی شکنیں بن کر اس کو ہضم کر جاتے ہیں کیونکہ یہ “Emotional intelligence ” کا نشاندہی کرتا ہے مگر ہم سیاسی ہیں ۔
آج راستے میں جاتے ہی ایک دوست سے ملاقات ہوئی، ہاتھوں میں ہاتھ پکڑ کر چلتے جارہے تھے اسی گفت و شنید میں اس نے دریافت کیا کہاں جارہے ہو؟ فوراً بتایا کہ میڈیکل کے کچھ دوست ہیں ان سے ملنے جارہا ہوں اور وہ احتجاج کی تیاری میں ہیں جن کی حق تلفی ہوئی ہے، ٹیسٹ میں جو یہاں ایک معمول بن چکا ہے، میں نے اس سے اسرار کیاکہ آپ بھی آجائیں ساتھ چلتے ہیں رستہ بھی یہی ہے انکی حوصلہ افزائی بھی ہوگی، تو اس نے فوراً میرا ہاتھ جھڑکا جیسے میں نے اسے کسی جنگ لڑنے کی آفر کی ہو اور وہی ناسور لفظ پھر کانوں میں گونجا میں ایک “غیر سیاسی” ہوں اور اپنے چھوٹے بھائی کے داخلے کیلئے فلاں لیڈر کے پاس جارہاہوں، اسی طرح میں نے دہراتے ہوئے لفظوں میں کہا ارے بھئی آپ تو مجھ سے بھی سیاسی نکلے اسی کو تو “سیاست” کہتے ہیں۔ چاہے ذاتی مفاد ہو یا اجتماعی، اس نے ایک ٹھنڈی سی آہ بھری اور بات کو ٹول مٹول کر راہ فرار اختیار کی۔
یہ حقیقت پر مبنی واقعات ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ “غیر سیاسی” لوگ وہی ہیں جو حق و سچ سے چھپ کر ایک چپ کو سکھ کا سانس سمجھ کر جی رہے ہوتے ہیں، یہی سیاسی بحث و مباحثہ کو فضول سمجھ کر خود کو چند رٹی ہوئی کتابوں میں اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں جو انّا کی روح کو پروان چڑھاتی ہے ۔
کسی مفکر نے خوب کہا کہ “اگر آپ حق کیساتھ کھڑے نہیں ہوئے تو تاریخ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ مسجد کہ حجرے میں تھے یا طوائف کے کوٹھے پر”۔
حقیقت میں یہ غیر سیاسی نہیں بلکہ زندہ سماج میں پژمردہ لوگ ہیں جو خود کو گونگا ، بہرا ، اور اندھا بناکر بھی خود کو بہتر سمجھتے ہیں ۔
مگر یہ ان کا قصور نہیں بلکہ انہیں اس طرح کی تربیت ملتی ہے اور وہ حقائق سے خود کو پرے رکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔
اس سے مجھے یاد آیا ڈاکٹر کہور خان بلوچ نے قیصر بنگالی کے کتاب چھپنے پر ایک مثال دی کہ ہمارا قوم ” Stockholm syndrome” کی بیماری میں مبتلا ہے، یہ ایسی مرض ہے جس میں مریض دشمن سے لگن شروع ہو جاتا ہے،اور بندہ اس کے ظلم و جبر ، ذیادتی نا انصافی اور بربریت کے قید میں رہ کر وقت کے ساتھ عادی ہوجاتا ہے۔
یہی کیفیت آج کے ہمارے غیرسیاسی حضرات کی ہے ! ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔