اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ ہومین رائٹس کے طیبہ بلوچ ، ایکٹویسٹ حوران بلوچ اور خاران سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی کارکن وحید بلوچ ، مراد بلوچ و دیگر شامل تھے۔
اس دوران ماماقدیر نے وفود سے گفتگو کے دوران خواتین کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ خواتین پر حملوں اور اُن پر علم و شعور کے دروازے بند کرنے کی ریاستی پالیسی کے اسباب کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سفاکانہ ریاستی پالیسی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بلوچ خواتین کی موجودہ بیداری کی لہر کے ابتداء سے ہی پرُامن جد وجہد میں فعال و شعوری کردار ادا کرتی چلی آرہی ہیں، خصوصا ریاسی خفیہ اداروں کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف وی بی ایم پی تنظیم کے پلیٹ فارم سے دس سال سے زائد عرصے سے جاری علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ اور کوئٹہ سے سلام آباد تک طویل ترہن احتجاجی لانگ مارچ میں بلوچ خواتین کی شرکت وفعال کردار نے ایک جانب پرامن جدوجہد کو حقیقتا عوامی رنگ دی ہے ۔
ماماقدیر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہ دوسری جانب بلوچ خواتین نے پاکستان کی انسانیت سوز بلوچ نسل کشی کو بے نقاب کرنے میں بھی ایک بہترین کردار ادا کر رہی ہیں ، نہ صرف یہ کہ بلوچ خواتین کے احتجاجی مظاہروں ، ریلیوں میں پیش پیش رہتی ہیں بلکے انکے علمی جدوجہد بھی پاکستان کے خفیہ اداروں کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہیں۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ بلوچ خواتین کا یہ فعال کردار پاکستانی خفیہ اداروں کو کٹھکتا ہے ، اس لیے وہ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے ذریعے بلوچ خواتین کو خوفزدہ کرنا اور پُرامن جدوجہد میں اُن کو ختم یا کم کر چاہتے ہیں ، چونکہ بلوچ معاشرہ ایک سیکولر معاشرہ ہے جس میں مذہبی آزادی رواداری کی روایت بہت قدیم اور مضبوط ہے اس لیے بلوچ معاشرے میں خواتین کے فعال کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، لائق و فعال کردار کے حامل خواتین کو شیرزال کا نام دیکر اُن کی قدر اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے اپنے گفتگو کے آخر میں کہا کہ بلوچ خواتین پر حملوں اور اُن کو لاپتہ کرنے سے ریاست پاکستان اور اس کے خفیہ ادارے بلوچ معاشرے کو اس قومی اقدار اور روایات سے محروم کرکے اُس کے انسان دوست ثقافت کو مسخ کرنا چاہتی ہیں۔