امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کا فیصلہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور اس سلسلے میں انہوں نے کسی سے مشاورت نہیں کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے نائب صدر مائیک پینس اور دیگر معاونین کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے کیمپ ڈیوڈ میں طالبان کے ساتھ امن بات چیت منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو کیمپ ڈیوڈ آنے کی دعوت دینا مکمل طور پر اُن کا اپنا فیصلہ تھا اور اسے منسوخ کرنا بھی انہی کا فیصلہ ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اتوار کو طالبان اور افغان صدر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں الگ الگ ملاقات کرنا تھی جسے انہوں نے منسوخ کر دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ امن بات چیت کے دوران طالبان نے حملے جاری رکھے اور جمعرات کو ہونے والے حملے میں ایک امریکی فوجی بھی ہلاک ہوا۔ لہذا بات چیت اور حملے ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ’مردہ‘ ہو چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ ایک عرصے سے افغانستان میں ایک تھانیدار کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس سلسلے میں امریکہ نے وہاں زبردست کام کیا ہے۔ اُن کے بقول ہم افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں، تاہم یہ کام کسی مناسب وقت پر کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ لگ بھگ ایک سال سے جاری تھا اور امریکا کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ فریقین کے درمیان سمجھوتے کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔
اگر صدر ٹرمپ اس مسودے کی منظوری دے دیتے ہیں تو امریکا افغانستان کے پانچ فوجی اڈوں سے پانچ ہزار فوجیوں کو اگلے 135 دن میں واپس بلا لے گا۔