امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کر دیے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ اعلان سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کیا۔
امریکی صدر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ طالبان سے مذاکرات کابل حملے کے بعد منسوخ کیے گئے ہیں جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
انھوں نے مزید لکھا ’یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔‘
اپنے ٹویٹر پیغام پر امریکی صدر نے کہا کہ جھوٹے مفاد کے لیے طالبان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ وہ مزید کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ’کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے ہونے والی خفیہ ملاقاتیں بھی منسوخ کر دیں ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں اور افغان صدر سے الگ الگ ملاقاتیں اتوار کو ہونا تھیں۔ وہ آج رات امریکہ پہنچ رہے تھے۔‘
امریکی صدر نے اپنی ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ اگر طالبان جنگ بندی نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں بامقصد معاہدے کی صلاحیت موجود نہیں۔
واضح رہے کہ قطر کے دارلحکومت دوحا میں امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے مابین جاری امن مذاکرات کے نو دور ہو چکے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے مجوزہ امن معاہدے کے مطابق طالبان کی طرف سے سکیورٹی کی ضمانت کے بدلے تقریباً پانچ ہزار امریکی فوجی 20 ہفتوں میں افغانستان سے چلے جائیں گے۔
اس وقت تقریباً 14 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔
سنہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد افغانستان میں اب تک بین الاقوامی اتحادی افواج کے تقریباً 3500 ارکان ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے 2300 سے زائد امریکی فوجی ہیں۔
دوسری جانب اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں، عسکریت پسندوں اور سرکاری افواج کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اقوام متحدہ نے فروری 2019 کی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس جنگ میں اب تک 32 ہزار سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
ادھر براؤن یونیورسٹی میں واٹسن انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس جنگ میں 58 ہزار سکیورٹی اہلکار جبکہ 42 ہزار مخالف جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں امن معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونا تھے، جن میں جنگ بندی، افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام، آئینی ترمیم، حکومتی شراکت داری اور طالبان جنگجوؤں کے مستقبل سمیت کئی مسائل پر بات چیت شامل ہے۔