شعور ذہن کے لاشعور میں
تحریر: نمرہ پرکانی
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ دنوں سے مسلسل کچھ لکھنے کا سوچ رہی تھی، میرے سامنے بہت سارے موضوع دماغ کی دہلیز پر دستک دے کر خاموشی سے دبے پاؤں واپسی کا راستہ لیتے اوجھل ہوجاتے۔ جیسے لکھنے کے لیے سیاست سے سیاحت، افریقہ کے جنگل یا عامر خان کا دنگل، لوک داستانیں یا پھر کسی راجہ اور رانی کی کوئی کہانی لسانیات یا پھر کسی شاعر کی کلیات، موضوع بہت سارے ہیں جن پر لکھتے لکھتے قلم کی سانس تھم تھم جاوئے مگر باز نہ آوئے۔
فلسفہ میری دسترس سے باہر اور نفسیات مجھے کوئی جادو ٹونا کرنے والی بوڑھی مائی لگتی ہے۔
خیر یہ ہوئی ادھر ادھر کی باتیں اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف، نوجوان جو بظاہر اپنی زمہ داریوں سے غافل بھی نہیں اور جہاں فرار کی راہیں ڈھونڈتے نظر آتے ہیں، جیسے اپنی ذمہ داریوں سے فرار جو اس پر عائد ہوتی ہیں۔ گویا آج کا نوجوان وہاں ہے جہاں انفرادیت نے اجتماعیت کو اسیر بنایا ہوا ہے، سب کو اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد میں وقت بے وقت اذانیں دیتے سنتے ہیں، مگر ہمارا سماج جو نوجوانوں سے بنتی ہے، وہ نوجوان جو راستوں کو ڈھونڈتے ہیں، جو انفرادیت پر اجتماعیت کو اہمیت دیتے ہیں، وہ اس بھیڑ بھاڑ میں کھو رہے ہیں، اپنے آپکو، اپنی ذمہ داریوں سے دور رکھ کر ایک ایسی دنیا تخلیق کرنے میں لگے پڑے ہیں جنکے دونوں سرے ہی غائب ہیں، مانو کوئی بھول بولیا میں بھٹک گئے ہوں اور نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔
وہ کہتے ہیں کہ جب نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ ہو، شعور ذہن کے لاشعور میں چلا جاتا ہے۔ جہاں شعور اور لاشعور کا تضاد نئے تضادات کو جنم دیتی ہے، نوجوان جو کسی بھی ملک میں سماج کی راہ متعین کرنے میں اوّل دستے کا کردار ادا کرتے ہیں، راستہ بناتے ہیں، کہیں ایسا نہیں کہ ہم اس راستے سےہی بھٹک گئے ہیں؟
ممصنف روب وائیڈ کہتے ہیں کہ سماجی ڈھانچہ بغیر نوجوانوں کی محنت و کوشش اور احساس ذمہ داری کے ایک ایسے کھنڈر کی طرح ہے جو کسی بھی وقت گر کر زمین بوس ہوسکتی ہے، جس کے ملبے تلے ایک نسل دب کر بے موت مر جاتی ہے۔
سوشل میڈیا نے گلوبل ویلیج کا خواب شرمندہ تعبیر تو شاید کردیا ہے، مگر ہم نوجوانوں کو اپنے آپ سے، اپنے سماج سے، سیکھنے، پرکھنے اور سوچنے کی لگن اور مدار سے جیسے ہٹا دیا ہے۔ سوچنے سے، راستے نکلتے ہیں راستوں سے منزل ملتی ہے، منزلیں ڈیرہ ہوتی ہیں دھوپ میں چھاؤں جیسی۔
ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے انکا سامنا کرکے نئے راستے بنانے ہیں، جہاں ہمارے بعد آنے والی نسلیں ان دشواریوں کا سامنا نہ کریں، جنکا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جہاں صورتحال کا سامنا کرنے کے بجائے، اسکے آگے سرینڈر کرنا نفساتی الجھنیں، پڑھائی کو زمہ داری کے بجائے بوجھ سمجھ کر صرف ڈگری حاصل کرنے کی دوڑ ہمیں آگے نمبر ون پر نہیں بلکہ پیچھے کی جانب دھکیل رہی ہے، مسائل ہمارے ہیں ہمیں انکا سامنا کرنا ہے، ایک ایسے صحت مند سماج کی تعمیر کرنی ہے جہاں سوچنے سمجھنے اور بولنے پر ہمیں ہچکچاہٹ نہ ہو۔
یہاں اس بات کی وضاحت سے زیادہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی Situation کو اس کے subjective اور objective کا جائزہ لے کر اس Situation سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیئے نہ کہ اس کے آگے سرخم تسلیم کرنا چاہیئے۔
دنیا بھر میں صدیوں سے نوجوانوں نے وقت و حالات اور تمام سماجی پیچیدگیوں کے باوجود ان حالات کا مقابلہ کیا اور آج صدیوں سفر کرتے کرتے ہم تک آن پہنچی ہے اور ہمیں ایک صحت مند توانا اور شعور یافتہ سماج کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے تاکہ ہم اپنے حصے کا حق ادا کرکے ہمارے بعد آنے والوں کے لیئے آسانیاں پیدا کرسکیں۔
ہمیں ایک ایسے سماج یا معاشرے کی بنیاد رکھنی ہے جہاں نوجوان lead کرئے ایک ایسا معاشرہ جہاں نوجوان Guide کرئے، جہاں تخلیق کا تنزل نہ ہو، تنقید تعمیر کے راستے کھولے، مایوسی ہم سے منہ پھیرے اور کامیابی اپنی باہیں کھولے ہمارا استقبال کرے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔