سیاسی اصطلاحات اور ریڈیکل ازم
تحریر: فضل یعقوب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سیاسی بیٹھکوں میں مختلف موٹے الفاظ اکثر وبیشتر سننے کو ملتے ہیں، جیسے رجعت پسند، قدامت پسند، اعتدال پسند، ترقی پسند، شدت پسند، روشن خیال، آزاد خیال، مادیت پرست، بنیاد پرست، مذہب پرست، قوم پرست، ماضی پرست، بائیں بازو، دائیں بازو اور فسطائیت وغیرہ جنہیں علم سیاست میں سیاسی اصطلاح کہا جاتا ہے۔
سیاست میں اس طرح کے اصطلاحات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ اصطلاحات کسی بھی سماج میں، موجود کسی فرد، گروہ، پارٹی، تنظیم اور تحریک کی عمومی سیاسی رویئے، سوچ اور نظریئے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سامنے والا کس تبدیلی کی سماج میں خواہش مند ہے۔
کیونکہ ہر سیاسی فرد اور گروہ معاشرہ میں کوئی سماجی یا معاشی تبدیلی کی خواہاں ہوتا ہے۔ اب یہ تبدیلی کیسے ہونی چاہیے، کس طرح ہونی چاہیے اور اس کیلئے جدوجہد کی رفتار کتنی ہونی چاہیے، یہ اس فرد اور گروہ کے نظریئے پر منحصر ہے، اب انکی سوچ کو بیان کرنے کیلئے ہمیں سیاسی اصطلاحات درکار ہوتی ہیں۔ جیسے اگر ہم کہیں کہ یہ آزاد خیال ہے تو سمجھو کہ سیکولر تبدیلی لانا چاہیگا، اس کے برعکس اگر مذہب پرست ہے تو حکومت کے ہر فیصلہ میں مذہب کو بنیادی اہمیت ہوگی، اگر وہ رجعت پسند ہے تو مذہبی شدت پسند ہوگا۔ اگردائیں بازو سے ہے تو اپنا کام مروج قوانین کے اندر اپنا سیاسی سرگرمی رکھیگا، اور بائیں بازو سے ہے تو مروج قوانین سے بالاتر ہوکر جدوجہد کریگا۔
جیسے کہ بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کا ایک مشہور نعرہ ہے کہ “جب نا انصافی قانون بن جائے تو قانون کے دائرے میں رہ کر حقوقِ مانگنے سے بہتر ہے کہ قانون توڑ کر حقوق چھینا جائے”.
الغرض ہر اصطلاح اسی طرح ہمیں لوگوں کی سوچ ، فکر وفلسفہ اور جدوجہد کے طریقہ کار سے واقف کرتا ہے۔ اب بات کو اور پیچیدہ کرنے کی بجائے میں اپنے موضوع پر آتا ہوں۔
مذکورہ بالا اصطلاحات کی طرح ریڈیکل بھی ایک سیاسی اصطلاح ہے، جس کا مطلب علم سیاست میں ترقی پسند کے ہیں۔ جیسے پہلے بیان کرچکا ہوں کہ سیاسی سوچ کا مالک ہمشیہ کوئی سماجی یا معاشی تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔ ریڈیکل بھی اسی طرح موجودہ نظام سےمکمل نا خوش ہوتے ہیں اور بالکل سرے سے ایک نیا نظام متعارف کرنا چاہتے ہیں اسلیئے انہیں ترقی پسند کہا جاتا ہے۔
ریڈیکل لفظ لاطینی زبان کے لفظ Radic, Radix سے ماخوذ ہے جس کا مطلب Root جڑ کے ہیں۔ اسی وجہ سے علم حیاتیات میں بیج کی اس حصے کو بھی ریڈیکل کہا جاتا ہے جہاں سے پودے کی جڑ نکلتا ہے، یعنی ریڈیکل موجودہ مروج نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ایک نیا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں۔
ریڈیکل کا اصطلاح سیاست میں پہلی مرتبہ اٹھارویں صدی میں برطانیہ میں چارلس جیمز اور اس کے ساتھیوں کیلئے استعمال ہوا۔
چارلس جیمز نے 1797 میں ایک قرارد پیش کیا کہ انتخابات میں متوسط طبقے کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ کیونکہ اس وقت لندن میں صرف بورژوا طبقہ ووٹ کاسٹ کرسکتے تھے مگر پرولتاریہ کو اجازت نہیں تھی۔ اُس دور میں لندن جیسے بادشاہی نظام میں اِس طرح کی صدا بلند کرنا ایک اانقلاب سے کم نہیں تھا۔ اس وجہ سے اس قرار داد کو ریڈیکل ریفارم کا نام دیا گیا اور جن لوگوں نے اس قررداد کی حمایت کی ان سب کو بھی ریڈیکل کہا گیا۔
ریڈیکل کا تعلق بائیں بازوں ونگ سے ہوتا ہے تو اس لیئے انہیں لوگ شدت پسند کہتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ تمام ریڈیکل شدت پسند ہوں۔ بہت سے ایسے بھی ریڈیکل نظریئے کے لوگ بھی ہیں جو پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن ریڈیکل موجودہ نظام اور مروج قوانین سے مکمل طور پر نا خوش ہوتے ہیں اور جلدی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، اور جلدی تبدیلی لانا پرامن طریقے سے مروج قانون کے دائرے میں رہ کر لانا مشکل ہوتا ہے اسلئے وہ مروج قانون سے بالاتر ہوکر تبدیلی کیلئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اس وجہ سے فسطائی سوچ اور ایکسٹریم رائٹ ونگ کے لوگ انہیں شدت پسند تصور کرتے ہیں۔
لندن کی معتبر نیوز چینل بی بی سی بھی ریڈیکل کی اصطلاح کو غلط استعمال کرتا ہے اس لیئے اس کی وضاحت کرنا ضروی سمجھتا ہوں۔ بی بی سی طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کیلئے ریڈیکل کا اصطلاح استعمال کرتا ہے، اگر اس کو سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو طالبان کو ریڈیکل نہیں کہہ سکتے گوکہ طالبان بھی موجودہ نظام سے نا خوش ہیں اس کی تبدیلی کیلئے برسرپیکار ہیں لیکن انکی سوچ ترقی پسندانہ نہیں رجعت پسندانہ ہے کیونکہ وہ ایک پرانا نظام یعنی خلافت نافذالعمل کرنا چاہتے ہیں جو ایک نئی چیز نہیں تو ان کیلئے سیاسی تناظر میں ریکشنری کا اصطلاح موجود ہے۔
اسی طرح وہ بلوچ مسلح تحریکیں جو موجودہ نظام سے نا خوش ہیں تبدیلی کےلئے جدوجہد بھی کررہے ہیں لیکن اگر بلوچستان میں نوری نصیرخان اور خان مہراب خان کا طرزِ حکومت لانا چاہتے ہیں وہ بھی ریڈیکل نہیں رجعت پسند ہیں۔ ہاں وہ سیاسی تنظیمیں اور تحریکیں جو گوکہ پرامن اور سست رفتاری سے جدوجہد کرہے ہیں مگر ایک نیا سماجی اور معاشی نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں تو وہ ریڈیکل ہیں۔
اگر دائیں اوربائیں بازوکی سیاست کے حساب سے دیکھا جائے تو رجعت پسند اور ریڈیکل دونوں بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں مگر رجعت پسند تخریبی جب ریڈیکل ترقی پسند سوچ کا مالک ہوتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔