سوداگر
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
لفظ زندہ تب ہوتے ہیں جب ان پر عمل ہوتا ہے۔ تحریر و تقریر کی زینت بننے کے بعد ان الفاظ پر غور کریں تو سماج اور معاشرے میں بہت سے بدنصیب الفاظ بھی زندہ نظر آتے ہیں۔ یہ فیصلہ آپ کا ہوگا کہ بد نصیبی کے ان الفاظ میں معاشرہ کے ساتھ ساتھ اور کون کون سا چہرہ بدنامی کا یہ سیاہ داغ لیئے اس قطار میں کھڑا ہے۔ ایک بدترین انجام سے بچنے اور ان الفاظ کو بدنصیب ہونے سے بچانے کیلئے مثبت سمت میں حرکت کرنا ضروری ہوگا۔ زبان بندی سے انکار کرنا ہوگا۔ ظلمتوں کے خلاف عملی کردار بننا ہوگا۔ کسی کرشماتی کردار کے پیدا ہونے کا انتظار کیے بنا ایک عام انسان کی حیثیت سے اٹھنا ہوگا۔ شناخت، قوم، قومی اثاثہ جات، انسانیت کو بیچنے سے انکار کرنے کیلیے میدان عمل کا حصہ بننا ہوگا۔
قیمت لگتی ہے، مال بکتا ہے، خریدا جاتا ہے۔ منڈی لگتی ہے۔ انسان بکتے ہیں۔حیوان بکتے ہیں۔ تب لوگ سوداگر بنتے ہیں۔ ان سوداگروں کے ہاتھ لگنے والا ہر شے برائے فروخت ہوتی ہے۔ چیزوں کی قیمت و معیار معلوم کرنا لمحہ بھر کا ایک قصہ ہوتا ہے۔ جو جتنا مال بٹورے وہ اتنا بڑا سوداگر بن جائے۔ ان سوداگروں میں ایک طبقہ کرگز جیسے ڈھونڈ خوروں کی بھی ہے، جو وطن بیچتے ہیں، ماں و ننگ و ناموس بیچتے ہیں۔ بھائی اور باپ کا خون پی جاتے ہیں۔ معیار بیچتے ہیں، دل و دلدار بیچتے ہیں۔ یہ کسی سے لگاؤ نہیں رکھتے بس انتظار کرتے ہیں کب منڈی لگے اور کب سودا ہو۔ سب بکتا ہے انکے ہاں۔ ننگ ہو یا ناموس، ساحل ہو یا وسائل سب قابل فروخت سوداگروں کیلئے ، چوکھٹ پر کوئی آئے نہ آئے یہ خود کو بیچنے کیلیے بیو پار ڈھونڈتے ہیں۔
منافعہ خوروں کیلئے سب سے بہترین کاروبار مذہب ہے۔ مذہب کے نام پر تعویز بکتے ہیں، مدارس بکتے ہیں ان میں زیر تعلیم طلباء و طلبات کو بیچا جاتا ہے، خریدار کوئی بھی و سوداگر مذہب پوچھ کر سودا نہیں کرتے کرنسی ڈالر ہوں تو بہت خوب اور روپیہ ہو تو بھی چلے گا۔ یہ کاروبار اتنا موثر رخ اختیار کرچکا ہے کہ پہلے تو پولیس کے تھانوں کی ماہوار بولی لگتی تھی اب تو مسجد کی امامت کیلئے بھی سفارش اور پیسہ چلتا ہے۔ جس خطے میں جب عالمی و علاقائی سامراج کو ضرورت ہو وہ ٹینڈر کرکے کوئی بھی فتویٰ خرید لیتے ہیں، پھر ہزاروں انسانوں کو جہنم کی بٹھی میں ڈالنے کا انتظام کردیا جاتا ہے۔ نہ جوں نہ توں کی نوبت آتی ہے۔ جب آقا کے حکم پر جنگ کے طبل بند کرنے ہوں تو کافر اور جہاد لفظ ہی نصاب سے نکال دی جاتی ہے۔
بلوچ اس دیس کے باسی ہیں یہاں ریاستی غلامی نے سب کچھ برائے فروخت کردی ہے یہاں تک کے تعلیم بھی اسکولوں اور سرمایہ داروں کے محتاج ہوکر رہ گئی ہے۔ ان تعلیمی اداروں کی بھاری بھرکم فیس دینے والے طلبا سماج میں اچھا و مثبت کردار کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ ان شعبوں کا انتخاب کرتے ہیں جس میں بڑا سوداگر بننے کے مواقع زیادہ ہوں۔ پھر یہاں پر سب بکتا ہے استاد بکتا، کتاب بکتا ہے قلم بکتا ہے علم بکتا ہے۔ ابتداء بکتی ہے تو انجام بھی بکتا ہے۔
ہسپتالوں، میں نرس و ڈاکٹر کی صورت میں مریضوں کی دوایاں،خون کے پیک، گردے، جسمانی اعضاء، نومولود بچے تک بیچنے والے یہ سوداگر سماج میں عزت و احترام کی سفید پردہ میں محبوس ہوتے ہیں۔ ہر ڈاکٹر سوداگر نہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ کوئی ایک بھی سوداگری میں ملوث نہ ہو۔ جہاں بچیوں کو پیدائش سے پہلے قتل کرنے کا رواج ہو وہاں ڈاکٹر سوداگر نہ ہو ناممکن ہے۔ چھوٹے سے بڑے آپریشن تک براہ راست سوداگری کے تحت ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں ایسی لاتعداد کلینک و ہسپتال ہیں، جو بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے قتل کرنے میں ملوث ہیں۔ سماج افیون و تریاق پی کر سو رہا ہو جہاں صبح شام قتل عام ہو کون کس سے پوچھے گا۔ کیوں کہ یہاں سوداگری کا رواج سرکاری سرپرستی میں عام کیا گیا ہے۔
قومی آزادی کو روکنے کیلیے لوگوں میں لالچ اتنی بھر دی گئی ہے کہ لوگ بکنے کے انتظار کررہے ہیں۔ منشیات سے لیکر میڈیسنز کے نام پر چلنے والے میڈیکل اسٹورز میں نشے کی سب دوایاں بازار سے بارعایت دستیاب ہوتی ہیں۔
گلی گلی پھرتے ہیں ضمیر کے منکر یہ خریدنے والے، ماں اور بہنوں کی عصمتیں تار تار کرنے والے، یہ درندے خوف و لالچ کی مکروہ تجارت کرتے ہِیں۔ نوجوانوں اور بچوں میں خوف کی پرچار کرتے ہیں۔ حق و سچ بات سے منہ کرتے ہیں۔ قومی سوچ کو مذہبی سوچ میں ڈھالنے کی ترکیب کرتے ہیں۔ بے حسی و بے پرواہی کے پیغمبر بنتے ہیں۔ ماوں بہنوں کا استحصال کرتے ہیں۔ حقوق نسواں کی پامالی کو غیرت سمجھتے ہیں لیکن وطن فروشی کی جھوٹی دلیلیں پیش کرتی ہیں۔ یہ ہوتے ہیں وہ سوداگر جو لاج نہیں رکھتے۔ مردہ ضمیروں کے اس ہجوم میں سفید پوشوں کے بڑے بڑے بھوت نظر آتے ہیں، جو صرف گفتار کے شیر ہوتے ہیں کردار کے غازی نہیں بنتے۔ نظریات خریدتے ہیں، ان نظریاتی کارکنوں کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں جو انکی اپنی نسلوں کیلئے آزادی کی جہد کیلئے سیاسی آواز اٹھاتے اور قربانیاں دیتے ہیں۔ قیمت لگتی ہے لوگ بک جاتے ہیں پر نظریہ کبھی نہیں بکتا۔
جس سماج و معاشرے میں قلم بکتا ہو، اخبار بکتی ہو وہاں سچ کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ عوام کے آنکھوں پر پردہ ڈال دی جاتی ہے۔ سوچ کا رخ بدلنے کیلئے میڈیا پر خرافات کی خبریں چلتی ہیں۔ مضمون نگاری سے لیکر کالم نگاری تک، ایڈیٹر سے مدیر اعلیٰ سب خود کی بولی لگا دیتے ہیں۔ پھر ظلم و جبر کی تاریکی میں عقل و شعور، سوچ و فکر کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ نوجوان ذہنوں کو کند کرکے زنگ لگا دی جاتی ہے۔ حق و باطل کے فرق کو مٹا دی جاتی ہے۔ بے شعور کو شعور پر غالب کر دی جاتی ہے۔ سماج کو زندان میں تبدیل کردی جاتی ہے۔ اندھرے سے اجالے کی جانب سفر میں سالوں لگ جاتی ہے۔ کئی باشعور فرزندوں کو سولی پر چڑھنا پڑتا ہے۔ پھر کہیں جاکر روشنی کی ایک کرن مشرق سے پھوٹ کر طلوع ہوتی ہے۔
نظریہ آزادی قوم کی امانت ہوتی ہے اسکی حفاظت قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہوتی ہے، ہر ہمسفر سیاسی و سماجی کارکن پر نظریئے کی آبیاری کیلئے کردار فرض ہوتی ہے۔ اسے سوداگروں کی پہنچ سے دور رکھنے کیلئے اپنے نظریاتی حدود کی پہچان ضروری ہے۔ نظریئے کی پرچار ہی نظریئے کی زندگی ہے، ایک سے دو اور دو سے چار بننے کیلئے جد و جہد کی جانی چاہیئے تاکہ سوداگر چاہیں بھی تو نظریہ آزادی کو نقصان پہنچا نہ پائیں۔ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ نظریئے کو دل سے، دماغ اور قلم سے کاغذ پر محفوظ کرنے سے قوم کو سالوں تک جہد کرنے کی طاقت ملتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔