زندگی
تحریر۔ زیرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی کا سوال اور اسکے معنی ہر دور میں ہر انسان، ہر فلسفی کے لیئے ایک اہم سوال بن کر ابهرا اور آج تک انسان خلوت میں اسی سوال کے جواب میں اپنے وجود کو تلاش کرتا ہے. زندگی کے مقصد کا سوال ہر individual کے پاس مختلف معنوں میں موجود ہیں. زندگی کے ہونے کا سوال ہمیں super being سے evolution تک لے آتا ہے اور زندگی کے مقصد کا سوال ہمیں سقراط کے زہر کا پیالہ پینے سے لے کر کم عمر ریحان تک لے آتا ہے. کسی مفکر نے خوب کہا ہے۔Life is not to live life is to live for a purpose.
مگر اس مقصد کو کہاں اور ذہن کے کس کونے میں تلاش کریں؟ جہاں خواہشات کا ایک سمندر طوفان میں گھرا ملتا ہے یا وہاں جہاں انسان جیتے ہیں، فقط جینے کے لیئے؟ چاہے اسکے لیئے کچھ بهی درکار ہو، خواہ جینے کے لئے مارنا ہی پڑے, جینے کے لئے وحشی بهی بننا پڑے. سقراط کے زہر کا پیالہ پی لینے سے ریحان کا فدائی شہادت کو گلے لگانے تک مقصدیت کو واضح کرتی ہے، پهر اس مقصد کا زندگی کے ہونے کے مقصد اور انسانی وجود کے مقصد سے کیا تعلق بن پاتا ہے. آیا دنیا میں جتنی بهی تحریکیں اپنے آزادی اپنے شناخت کے لئے چلی ہیں، انکا مول و مراد ظلم و جبر کے خلاف اٹهنا تها ظالم کو للکارنا تها اپنے ذات کو اس مقصد کے لئے قربان کرنا تها جس سے ہر آنے والے مظلوم کے لئے وہ زندہ و جاوید رہیں۔ .
زندگی تو قدرت کی عطا کردہ ایک نعمت ہے، مقصد ہمیں دنیا میں آنکھ کهولتے ہی مل جاتا ہے جب ہم اپنے آس پاس لوگوں کا ہجوم دیکهتے ہیں انکے لبوں پہ ہنسی دیکھتے ہیں. یا پهر ماں کے آنکهوں میں وہ کهونے کا غم جھلک رہا ہوتا ہے کہ کہیں یہ بچہ بهی ظلم کے شکار نہ ہوجائے. جب هم اس قابل ہوجاتے ہیں کہ اپنے natural tools کو استعمال کرسکیں تو دنیا کی حقیقت هم پر عیاں ہونے لگتی ہے، جس اندھیرے سے ڈرایا جاتا تها اس سے پیار ہونے لگتا ہے، جب هم اپنے ذات کے اندر اس تاریکی کو محسوس کرنے لگتے ہیں. ان tools کے ذریعے ہمیں اس بات کا ادراک ہونے لگتا ہے کہ opinion اور knowledge کے درمیان کیا فرق ہے. سنی سنائی و تجرباتی علم کو opinion کہہ دیتے ہیں تجربہ و مشاہدے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو knowledge کا نام دینے کے قابل ہوجاتے ہیں.
زندگی کو جب جینے لگتے ہیں تو ہمارا وجود depend کرتا ہے دوسروں کے وجود پر، آس پاس کے لوگوں پر، هم اس collective کا حصہ بن جاتے ہیں، جو ایک ہی زبان بولتے ہیں، ایک کلچرل کے ہیں، ایک ہی زمین پر رہتے ہیں اور ایک ہی شناخت رکھتے ہیں. اجتماعی طور پر زندگی ہی بنیاد ہے اور یہی ہمیں جینے کا مقصد دیتی ہیں یا یوں کہہ دیجیئے کہ زندگی کی ابتداء تو اجتماعی عمل سے ہی ممکن ہیں. اس اجتماع میں جہاں لوگ ایک ہیں. وہاں لوگوں کا رہن سہن ایک سا ہے تاریخی, سیاسی, سماجی اور معاشی زندگی یکساں ہیں، ایک جانا پہچانا یکسانیت لوگوں کے مزاج کو تخلیق کرتا ہے. جب هم اپنے اردگرد ہونے والے ہر حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرنے لگتے ہیں تو اسکے پیچھے اسباب کے تلاش میں شروع ہوجاتے ہیں. چیزوں اور حرکات کا مشاہدہ و تجزیہ ہمیں سچائی سے روشناس کراتی ہے۔
جب هم چیزوں کا مشاہدہ کرنے لگتے ہیں، ان تمام حرکات و سکنات کا جو ہمارے قومی مزاج سے قطعی مطابقت نہیں رکهتے تو اس عمل کا cause یقیناً بیرونی طاقت ہی ہوگا. مشاہدات, تجزیات و تجربہ اور سبب و علت ہمیں سچائی ہے اس غار تک لی جاتی ہے جسے نام نہاد میڈیا و سامراجی قوتیں آباد کاری کے ذریعے بنیادی مزاج و artificial senses کے ذریعے جهوٹ و چاپلوسی سے بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ہمارے آنکهوں سے دیکهنا, کانوں سے سننا اور دماغ سے سوچنا ہی انسان بننے کے قابل بنا سکتی ہے، چونکہ قومی شناخت کو مٹانا کسی بهی بیرونی قوت کا اولین مقصد ہوتا ہے تاکہ قوم کی بنیادیں ہل سکیں اور ان میں دراڑ آسکیں تاکہ قوم کی بنیاد پرستی کی جڑیں آج کی نئے دنیا سے توڑی جاسکیں، بجائے قوم کے هم انسانیت کی بات کرنے لگیں. ہر ظلم کے پیچهے اگر هم یہ سوچنا شروع کردیں کہ آخر ایسا کیوں، یہ جو لاش چوراہے پہ گرا ہے آخر کیوں یہ لوٹ مار، یہ ظلم آخر کیوں؟ جب دماغ سے کیوں نکلنا شروع ہوجائے تو یہ کسی بهی طاقت کی بس کی بات نہیں کہ روک سکے اس کیوں کو. آج ہر دیکھنے والے کے دماغ میں یہ کیوں ابهرتا ہے یہ کیوں سامراجی قوتوں کی موت و ہر فرد کے زندگی کا مقصد بن سکتا ہے..
ہمارے زندگی کے مقصد کا ابتدا اس وقت ہوجاتا ہے جب کسی لاش کو دیکھنے کے بجائے اسکے جذباتی انداز میں فیصلہ کریں بلکہ reasonably اسکے مرنے کا سبب ڈھونڈنے کی کوشش کریں.
اگر ایک شوانگ کی جگہ میرا لاش ملتا تو؟
ایک طالب علم کی جگہ میرا تصویر لاپتہ افراد کی لسٹ میں ہوتا تو؟
توتک سے میرے ہڈیوں کا ڈھانچہ ملتا تو ؟
انسان کے سوچنے کی صلاحیت نے ہی اسے rational animal بنایا، سوال و سوچ نے ہی فلسفے کی بنیاد رکهی، اگر اج هم سوچنا شروع کردیں تو ہر ایک absurdity کا جواب ہمیں مل سکتا ہے. ہمارا سوچنا ہی عمل کا سبب بن سکتا بنا کسی حکمت کے عمل بےمعنئ ہوجاتا ہے، ہمارا سوچنا ہی ظالم کی شکست و ہمارا مقصد ہوسکتا ہے، اگر هم سوچیں تو اپنے اردگرد ہونے والا اور اپنے ہی انداز ہمیں پرائے لگنے لگیں گے. ہر ایک عمل کو جو کسی طاقت کی مرضی و منشاء کے مطابق کیا جارہا ہے. ظالم کی ہمہ وقت ہہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ غیر ضروری و چهوٹی الجھنوں میں پس کر سوچنے کی اس natural صلاحیت کو کمزور کردیں.
حیات کے مقصد کا سوال ہر فرد کے ذہن میں ابهرتا ہے، پھر وہ سوچتا نہیں کہ اسکا مقصد اسکے اردگرد کے ہی دنیا میں کہیں چهپا ہوا ہے، بس محسوس کرنے کی ضرورت ہے تجریدی بنیاد پر. اسے analysis کرنے کی ضرورت ہے. کیونکہ هم جو دیکھتے ہیں حقیقت اسکے برعکس ہی پاتے ہیں. آج کے اس materialist دنیا میں ہمارے ہر جانب بے حسی و انفرادیت کو ہی پروان دیا جارہا ہے ہمارے ہر جانب ہر ظاہری عمل میں فریب کا ہی ملاوٹ کیا گیا ہے. جس factory سے اعمال کو policies کیا جاتا ہے اسکا مقصد بس ایک ہی ہوتا ہے کہ مزاحمت کرنے والے قوت کو کس کس طرح سے کمزور کی جاسکیں.
سقراط کا زہر کا پیالہ پینے میں اسکے علم و دانش کا مقصد چهپا ہوا تها ریحان کا کم عمری میں فدائی حملہ کرنے میں ہی اسکے زندگی کا مقصد اور قوم کی بقا کا فلسفہ چهپا تها۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔