جنیوا سوئٹزر لینڈ میں بین الاقوامی این جی اوز سمیت مختلف ممالک کے سفارتکاروں کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔
بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کے زیر اہتمام بلوچستان پر ہونے والی یہ کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس ہے جس میں مختلف ممالک کے سفارت کار اور بین الاقوامی این جی اوز کے نمائندوں نے شرکت کی۔
جنیوا میں موجود مختلف ممالک کے سفارتی اہلکار اور مختلف بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں نے بلوچ ہیومن رائٹس کونسل (بی ایچ آر سی) کی دعوت پر مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جنیوا میں بروکن چیئر میں بی ایچ آر سی کے زیر اہتمام “بلوچستان میں انسانی بحران” سے متعلق بریفنگ میں شرکت کی۔ البتہ جنیوا میں موجود 11 ممالک کی سفارتی مشن کے نمائندوں نے اس بریفنگ میں شرکت پر اتفاق کیا تھا لیکن جنیوا میں پاکستانی مشن کی مسلسل دباؤ کی وجہ سے سات ممالک کی سفارتی اہلکاروں نے آخری وقت میں نہ معلوم وجوہات کا حوالہ دے کر شرکت سے معزرت کر لی۔
شرکت کرنے والے سفارتی اہلکاروں کو بی ایچ آر سی نے گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں بلوچستان کے عوام کو درپیش انسانی حقوق کے منظم اور مستقل چیلنجوں کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بریف کیا، ان میں پاکستان کی ریاستی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر سیاسی مخالفین کی ماورائے عدالت قتل اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ شامل ہیں۔ ریاست پاکستان کسی بھی قانونی گرفت کے خوف کے بغیر بلوچ آبادی کو جبری طور پر بے دخل کرنے اور بستیوں کو نذر آتش کرنے میں بھی ملوث رہی ہے۔
سفارتی نمائندوں کو بتایا گیا کہ پچھلے 15 سالوں کے دوران ہلاک اور لاپتہ افراد کی تصدیق شدہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ لگ بھگ دس لاکھ افراد داخلی طور پر بے گھر ہوچکے ہیں، ہزاروں افراد ملک بدر ہوچکے ہیں اور اب وہ دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجر کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، مندوبین کو بتایا گیا کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے خاموشی کے سبب بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال خراب تر ہو چکی ہے اور بدسلوکیوں میں شدت آچکی ہے۔
بی ایچ آر سی کی طرف سے جاری کردہ ایک مختصر دستاویزی فلم بھی چلائی گئی جس میں اس معاملے کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اور پاکستان کے بلوچستان میں انسانی حقوق کی حالت کی ایک پریشان کن امیج کو دکھایا گیا، اس دستاویزی فلم کو بی ایچ آر سی کی آفیشل ویب سائٹ اور یوٹیوب پر 10 ستمبر 2019 کو جنیوا میں بی ایچ آر سی کے زیر اہتمام شروع کی جانے والی ہفتہ وار آگاہی مہم کے اختتام تک عام کیا جائے گا۔
پیٹر ٹیچیل فاؤنڈیشن کے ممتاز انسانی حقوق کی جہدکار پیٹر ٹیچیل نے سیشن میں خصوصی شرکت کی۔ پیٹر نے بی ایچ آر سی کے جمع کردہ اعداد وشمار کے ذریعے مندوبین کو بریف کیا۔
بی ایچ آر سی کے مطابق دو ہزار پندرہ میں پاکستان کے وزیر داخلہ، چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا کہ جون 2014 سے ، انٹیلیجنس پر مبنی 10،000 سے زیادہ کاروائیاں کی گئیں ، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ، جس میں تقریبا 36،000 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔
ستائیس اپریل 2016 کو، حکومت بلوچستان کے وزیر داخلہ نے دعوی کیاکہ سیکیورٹی فورسز نے 12،234 افراد کو گرفتار کیا اور 334 افراد کو ہلاک کیا।
بی ایچ آر سی کے انفارمیشن سیکرٹری قمبر مالک بلوچ نے اس بات پر زور دیا کہ ریاست پاکستان بلوچ قومی سوال سے نمٹنے کے لئے صرف فوجی جبر پر بھروسہ اور تکیا کرتی رہی ہے،بلوچستان شورش زدہ ہے اور لوگ محاصرے کی حالت میں رہ رہے ہیں جبکہ پاکستانی حکام عالمی برادری کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ بلوچوں کی قومی مزاحمت روک دی گئی ہے یا کچل دی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف ، فوج اور بلوچ مزاحمت کار ایک خونی ، لمبی اور تباہ کن محاذ آرائی میں بند گئے ہیں جس میں فریقین میں کوئی بھی فاتح کی حیثیت سے سامنے نہیں آرہے ہیں اور دوسری طرف بلوچستان میں خون اور آنسوؤں کی داستان جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز اور اس کی معاون مذہبی یا انتہا پسند تنظیموں کے بہت سے اقدامات واضح طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ریاستی حکام ، بلوچستان کے عوام کی قوم پرستانہ نظریات اور تحریک کے خلاف فتح حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک کہ بین الاقوامی برادری کی معنی خیز مداخلت کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔
قمبر مالک بلوچ نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ بلوچ تنازعہ کو حل کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں عالمی برادری کی مداخلت ضروری ہے، اس طویل اور خونی کشمکش کا حل ایک ایسی سیاسی ماحول پیدا کرنے میں مضمر ہے جو ایک خودمختار ریاست کے لئے بلوچوں کے جائز قومی حقوق کو تسلیم کرتی ہو- بلوچ تنازعہ کا واحد پُر امن حل اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کرا کر بلوچ عوام کی آزادانہ خواہش کا پتہ لگانا ہے جس کے لیے ایک مخصوص مدت کے لئے پوری بلوچ سرزمین کو اقوام متحدہ کے مینڈیٹ میں شامل کیا جائے۔