جنیوا میں اقوام متحدہ کے بیالیسویں انسانی حقوق کے سیشن میں بلوچ وائس ایسوسی ایشن کی طرف سے سی پیک اور بلوچستان میں ان کے اثرات کے موضوع پر ایک سیمنار منعقد کی گئی جس میں ایشیاء سمیت مختلف ممالک کے پینلز نے خطاب کیا۔
بلوچ وائس ایسوسی ایشن کے صدر منیر مینگل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کی 72 سالہ پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف مشرقی بلوچستان میں جاری شورش اور تحریک کے نشیب و فراز اپنی جگہ لیکن موجودہ دور میں بلوچ کی بقاء اور شناخت سمیت اپنی سرزمین پر اقلیت جیسے امراض میں مبتلا ہونے کی مستقبل قریب کے روش سے ظاہر ہوتی آثار پاک چائینہ اکنامک کوریڈور تک آکر رک جاتی ہے کیونکہ یہ وہ عمل ہے اگر دو قوتوں کی اشتراکیت سے بننے والی اس پراجیکٹ کو پایا تکمیل تک پہنچایا گیا تو بلوچ کی تباہی یقینی امر ہے کیونکہ بلوچ اس خطے میں پیدا ہونے والی پیچیدگی سے اس جنگ کے دوران اپنا پوزیشن برقرار نہیں رکھ پائے گا جس سے انہیں پاؤں تلے روندنا یقینی امر ہے کیونکہ یہ جنگ نہ صرف چند ممالک کے درمیان اقتصادیات کو بیلنس رکھنے کی خاطر لڑی جائے گی بلکہ پاکستان اپنی پرانی روش اور اپنے لے پالک قوتیں جو مذہبی شدت پسندی کے شہنشاہ ہیں ان کی اثر رسوخ کو بلوچ سرزمین میں پھیلا کر بلوچ قومی تحریک کو نا ختم ہونے والی پریشانی میں مبتلا کرکے انہیں ایک کونے پر مصروف کرسکتا ہے کیونکہ بلوچ قومی تحریک کو بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا ہے جس سے ہم ایک تو روز بہ روز اپنے سماج میں اپنے لوگوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کی طرف سے بلوچ کی شکل میں Parlimentarians کی صورت میں اپنی مسلط کی ہوئی پالیسیوں کو بلوچ سماج میں مستند کرنے کی کوشش کررہا ہے اور دوسری طرف بلوچ سیاسی قوت کے لئے مستقبل قریب میں چائنا کی گوادر میں اثر رسوخ اور ان کی بڑھتی فوجی قوت کو یہاں لاکر مستقل کرنا بہت بڑے چیلنجز کا سبب بن سکتا ہے جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے مزید سی پیک پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاک چائنا اشتراکیت میں بننے والی اس منصوبے کی وجہ سے کل کی بات ہے کہ گوادر میں ایک گاؤں کو مکمل بے دخل کرنے کی ریاستی سازش اپنی عروج کو چو رہا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو بلوچ اقلیت میں تبدیل ہونے سمیت اپنی شناخت بھی کھو بیٹھے گا۔
سیمنار میں موجود یورپین فاؤنڈیشن فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے فاؤنڈر جنید قریشی نے سی پیک اور اس کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک اور اس خطے میں چائینہ کی استعماریت کا شکار صرف بلوچ پشتون نہیں بلکہ ہم نے اس سانپ جیسے منصوبے پر اس مقام تک پہنچے ہیں کہ اس سانپ کا سر ہمارے خطے سے شروع ہوکر بلوچستان تک جاتا ہے جس کے اثرات انتہائی بھیانک ہیں آج جس طرح سی پیک منصوبے کی وجہ سے کشمیر گلگت بلتستان پشونخواہ پر جو منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ان مسائل کو لیکر وقت کی ضرورت کو بھانپ کر ہم اس قاتل منصوبے پر متحد ہوکر اس کے خلاف کوششیں کریں.
سیمنار میں ساوتھ ایشین ماہر و تجزیہ نگار ریٹائر کرنل فوجیکی نے کہا کہ پاک چائینہ اشتراکیت سے بننے والی اس منصوبے کو بلوچ قوم نے کسی صورت روکنا ہے کیونکہ جب یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو بلوچ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا.
سیمنار میں اٹالین صحافی رائٹر فرانسسکا، بلوچ دانشور واجہ صدیق آزاد، پشتون رہنماء سید سادات اور جرمن تھینک ٹینک کلاؤڈیا وائڈلش نے بھی سی پیک کے منفی اثرات پر اپنے اپنے مقالے پڑھیں۔