جنیوا : بی ایچ آر سی کے زیر اہتمام سیمنیار کا انعقاد

290

بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کے زیر اہتمام بروکن چیر جنیوا میں سیمینار بہ عنوان،” بلوچستان میں ریاستی سرپرستی میں مذہبی شدت پسندی کا فروغ؛علاقائی و بین الاقوامی اضطراب” کا انعقاد۔

 بی ایچ آر سی نے جنیوا میں ایک ہفتہ طویل آگاہی مہم کے دوسرے دن ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔

سیمینار کے ماڈریٹر بی ایچ آر سی کے قمبر مالک بلوچ تھے۔

پاکستانی ریاست کے انجینئرڈ “اسلامائزیشن آف بلوچستان” سے متعلق کانفرنس میں متعدد معزز مقررین نے شرکت کی،جنہوں نے اسلامائزیشن کے اس رجحان کے بارے میں ایک باخبر رائے پیش کی جس کے مطابق بلوچستان میں مذہبی جنونیت کو راستہ دیتے ہوئے سیکولر اور روادار بلوچ معاشرے کی بنیادوں کا تیزی سے کمزور ہونے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔

اس سیمینار کے مہمان خصوصی Ryszard Czarnecki تھے جو پولینڈ کے ایک سینئر سیاستدان اور یورپین پارلیمنٹ کے ممبر ہیں جو حال ہی میں یورپی پارلیمنٹ کے نائب صدر بھی رہے ہیں۔ Ryszard Czarnecki نے بتایا کہوہ یورپین پارلیمنٹ کے انسانی حقوق کی sub committee کے بھی ممبر ہیں۔

انہوں نے اپنی تقریر کے دوران اس بات پر زور دیا کہ پاکستان یورپ کا دوست ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کا عزم نہیں کرتا ہے اور ان انسانی حقوق کی اقدار کا پاپند نہیں بنتا جنہیں یورپ سنجیدگی سے لیتا ہے، اور ایسا تب تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنے زیر دست قومیتوں کی حقوق کا احترام نہیں کرتا اور ان اسلامی عسکریت پسندوں کی مدد اور مالی امداد ترک نہیں کرتا جو اس کے دل کے قریب ہیں اور پاکستان میں موجود مذہبی اور نسلی گروہوں کی قتل عام میں ملوث ہیں۔

ورلڈ سندھی کانگریس کے ڈاکٹر لکھو لوہانہ نے کہا کہ پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ایک طویل عرصے سے بین الاقوامی معیار اور موجودہ عالمی نظام کی خلاف ورزی کرتی آ رہی ہے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے عین مطابق حق خودارادیت کے خواہاں پاکستان میں سیکولر اور قوم پرست تنظیموں کو روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی سماجی و ثقافتی اور سیاسی آزادیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہیں- دوسری طرف، ریاست پاکستان ،کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں لشکر طیبہ ، داعش اور ریاست کے دیگر معاون عسکریت پسندوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر کام کر رہی ہے۔

دہلی کے نامور صحافی اور مذہبی شدت پسندی کے ریسرچر سلطان شاہین کے مطابق مسلمان ممالک اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ اسلامی شدت پسندی دنیا کی ترقی اور امن کے لئے سنگین خطرہ بن چکی ہے اور وہ اس دھوکے میں رہ رہے ہیں کہ مذہبی شدت پسندی کا اسلام اور مسلمان ممالک سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن دنیا میں کہیں بھی شدت پسندی کا واقعہ پیش آئے تو اسکی کڑی مسلمان ممالک سے جا کر ملتی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کا علاقائی امن کی تباہی اور مذہبی شدت پسندی کے فروغ میں بڑا کردار رہا ہے۔

ممتاز انسانی حقوق کے جہدکار پیٹر ٹاچل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے کا ذمدار ٹہرایا، ان کے مطابق مغربی ممالک بشمول امریکا جو ہتھیار پاکستان کو اسلامی عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے دیتا رہا ہے وہ ہتھیار پاکستان بلوچ قوم پرست قوتوں کے خاتمے کے لیے استعمال کرتا آیا ہے، پیٹر نے مطالبہ کیا کہ مغربی ممالک پاکستان کو دینے والی اپنی ہر قسم کی امداد کو اس بات سے مشروط رکھیں کہ پاکستان اپنی انسانی حقوق کی ریکارڈ کو بہتر بنائے گا۔

پیٹر نے مزید کہا کہ حق خود ارادیت بلوچوں کا حق ہے اور انکے اس قومی حق کی حصول میں پاکستان تاخیر تو کرا سکتا ہے لیکن انہیں اس حق سے ہمیشہ محروم نہیں رکھ سکتا۔

سیمینار کی صدارت بی ایچ آر سی کے سیکرٹری جنرل صمد بلوچ نے کی، اپنے اختتامی کلمات میں عبدالصمد بلوچ نے تمام معزز مقررین اور سیمینار میں شریک دیگر سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اپنی دسترس میں موجود تمام زرایوں کا ہر ممکن استعمال کرتے ہوے بلوچستان میں ہونے والی پاکستانی ظلم و جبر کی آگاہی دیں گے اور انہیں روکنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان مذہبی شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی کرتا آیا ہے اور اب ریاست پاکستان بلوچوں کی سیکولر اور جمہوری شناخت کو بنیاد پرست اسلامی سماجی پردہ سے ڈھانپنے کی کوشش کر رہا ہے،انہوں نے بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے مذہبی دہشت گردوں کے لیے راہ ہموار کرنے پر خاموشی اختیار کرنے پر کہا کہ یہ اسلامی عسکریت پسند بلوچستان کو ایک دوزخ میں تبدیل کر دینگے لیکن یہ محض وقت کی بات ہے کہ مغربی دنیا اس آگ کی تپش کو اپنے دہلیز پر محسوس کریں گے۔