تم سے کیسا رِشتہ ؟
تحریر: زمین زھگ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ کہوں سانس اور دل کا رشتہ یا یہ کہ آسمان اور زمین جیسا رشتہ ؟ کوئی جھوٹا رشتہ یا میرے جسم سے بہتے لہو سا رشتہ ، میں یہ نہ سمجھ سکا کہ کیسا رشتہ، آیا ایک ایسا عام رشتہ جسے دنیا کا ہر عام فہم انسان سمجھتا ہے۔
کوئی پاگل پن یا جنونیت ، تمہیں پانے کا جنون ، اپنے ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ تمہارے قدم بہ قدم ساتھ دینے کی تَپسّیا یا تمہارے جسم کی چاہت ۔
میں کبھی نہ سمجھ پایا نہ کوئی اور سمجھ پائے گا شاید تُم بھی نہ سمجھ پاؤ گی کیونکہ آیا کوئی ایسا رشتہ تخیل سے پَرے حقیقی دنیا میں وجود رکھتا ہے جو پورے جسم میں خون کی طرح بسیرا کیے ہو، جو سائے کی طرح کبھی ساتھ نہ چھوڑتا ہو، ایسا رشتہ جو موت آگے کھڑے رہنے اور جینے کا گُر سکھاتا ہو ، ایسا رشتہ جو کسی کو مرشد و مُرید ، خدا و عبادت گزار بناتا ہے۔
وہی رشتہ جسکا نہ کوئی نام ہے نہ کوئی اس سے واقف ہے، میرے وجود، میری انا کو مجھ سے چھیننے کا رشتہ جو آج تمہارے سِوا کسی چیز کا سوچ بھی نہیں سکتا اور وہ رشتہ جو تمہارے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتا۔ وہ رشتہ جو تخیل و خوابوں پر قبضہ جمائے ہوئی ہے
ایسا رشتہ کہ عشروں بعد کسی بستر پڑی تمہارے سرہانے مجھے تمہارا ہاتھ تھامے بٹھائے رکھے گی.
لیکن پھر بھی کچھ شکوے، کچھ گلے ہیں تم سے کیونکہ آجکل ایسا لگتا ہے کہ میں جینے لگا ہوں۔ آج کل جب کبھی کسی محفل میں بیٹھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ مجھ سمیت میرا وجود تمہارے ساتھ گیان میں ہے۔ زندگی عبادت سی لگنے لگی ہے۔
کیا تمہیں اب بھی یاد ہے کہ میں نے کہا تھا “تم میں مجھے اپنی زمین دکھائی دیتی ہے” اب مجھے زمین میں تم دکھتی ہو ۔ یہی رشتہ
یا پھر وہ رشتہ جس نے ہزار سے بھی زائد بار تمہیں میرے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا تھا
یا وہ رشتہ جب تم نے مجھ سے دُور جانے میں بھلائی سمجھی۔
جانتے ہو کہ ایک ایسا رشتہ ہے جو ہجر سے ختم نہیں ہوتا ۔ ایسا رشتہ جس سے نکلنا ناممکن لگتا ہے۔ وہ رشتہ جسے میں سجدہ کرتا ہوں ۔ تمہیں لازم و ملزوم بنانے والا رشتہ ۔ وہ رشتہ جو مجھے ہمّت و حوصلہ دیتا ہے ۔ وہ رشتہ مجھے خود سے زیادہ تمہارے لیے زندہ رکھتا ہے اور جو تم دُور رہ کر جینا سکھاتا ہے۔
ایسا رشتہ جس سے بھاگنا تو آسان ہے لیکن اسے چھوڑنا، نظر انداز کرنا یا بھولنا ناممکن۔ وہ رشتہ جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جسم اور روح کا رشتہ، ہر ایک سانس سے جُڑی اس ربط کا رشتہ جو موسیقی بھی ہے اور ساختگی سے بہتی شاعری بھی۔ ایک جسم سے ٹپکے اُس لہو کا رشتہ جو اک امید ، اک فلسفہ لیے زمین تک گرنے میں پوری نسل کا فیصلہ کرچکی ہوتی ہے۔ اُس آنسو کا رشتہ جو غم و خوشی دونوں ہی صورتوں میں ایک ہی بسیرت لیے نکلتی ہے اور رخساروں پہ رقص یا ماتم کرتی کہیں خشک ہوکر قصہ پارینہ بن جاتی ہے.
ایسا رشتہ جسے میں بیاں کرنے سے رہا اسے تا ابد نبھانے کی ٹھان چُکا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔