تقسیم کرو حکومت کرو – محمد عمران لہڑی

160

تقسیم کرو حکومت کرو

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

آج سے تقریبا ڈیڈھ صدی پہلے 1839ء میں جب انگریز نے ہمارے سرزمین بلوچستان پر قبضہ کیا تو اس وقت اس نے ایک پالیسی تشکیل دی جس کے ذریعے سے اپنے قبضے کو دوام بخشا. ان کی پالیسی Divide and Rule تھی. اس پالیسی کا مقصد تھا کہ بلوچستان میں بسنے والے اقوام کو آپس میں لڑا کر ان پر حکمرانی کرنا تھا. کافی عرصے تک ان کا یہ پالیسی کامیاب رہا. لیکن بلآخر یہاں کے بسنے والے اقوام بلوچ اور پشتون نے ان کے اس مزموم عزائم کو خاک میں ملا دیا.

آج پھر اپنے اردگرد کے حالات پر نظر رکھنے اور پرکھنے سے معلوم ہورہا ہے کہ انگریز والے قانون کو آزمانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے. بلوچ اور پشتون کو دست وگریبان کرنے کی سوچے سمجھے منصوبے ہورہے ہیں. بلوچ بھی ایک پسماندہ اور محکوم قوم ہے پشتون بھی. تاریخ کے اعتبار سے یہاں بلوچ اور پشتون ایک ساتھ رہے ہیں. ایک ساتھ سیاست کی ہے. یہاں تک کہ ان دونوں اقوام کے ثقافت بھی کافی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں.

ماضی میں بلوچستان ایک ایسا خطے کے طور پر پہچانا جاتا تھا کہ جہاں کے باشندے ایک بہادر قوم تھے. مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے. اگر دشمن بھی ان کے در (باہوٹ)پہ آتا تو اپنے جان سے زیادہ اس کی حفاظت کرتے. یہاں بسنے والے پشتون اور بلوچ قوم ایک جسم کے مانند تھے. جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی پورا جسم بے قرار رہتا. اسی طرح بلوچ اور پشتون ایک دوسرے کے دکھ اور درد, خوشی اور غم ہر حالت میں ایک دوسرے کے ساتھ تھے.

پھر سنہ 1969ء سے بلوچستان کے حالات نے کروٹ بدلی. جب روس کے افواج افغانستان میں داخل ہوئے تو اس کے منفی اثرات بلوچستان پر ہوئے. روسی افواج کو شکست دینے کیلئے بلوچستان کا سرزمین بہت استعمال ہوا. اگر میں یہ کہوں شاید غلط نہ ہوں گا کہ جن طالبان کو روس سے لڑنے کیلئے آئی ایس آئی نے تیار کرکے افغانستان بھیجا بعد میں وہی پاکستان میں خون ریز کاروائی کرتے رہے جو کہ آج تک جاری و ساری ہے. ان حالات میں بہت سے افغان باشندے اپنے ملک سے بیدخل ہوئے. پھر ان کو مہاجر کا نام دیکر کیا سے کیا نہیں کیا گیا. ابھی تک مہاجر کے نام پر بلوچستان میں کئی صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے بلوچ اور پشتون کو آپس میں دست و گریبان کرنے کی کوشش ہورہی ہے. لیکن اگر ہم اپنے ماضی کے غلطیوں سے کچھ نہ سیکھا اور واپس ان غلطیوں کو دہرایا، پھر بلوچ اور پشتون قوم کو زوال سے کوئی روک نہیں سکتا.

بلوچستان قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے. اپنے ساحل وسائل کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے. یہاں کے معدنیات سے کچھ ممالک ترقی کے انتہاء کو پہنچ گئے لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سرزمین کے والی وارث آج نان شبینہ کو ترس رہے ہیں. صرف یہاں تک نہیں بلکہ دنیا میں ریسرچ کرنے والوں کے رپورٹ کے مطابق بلوچستان غربت میں اول نمبر پر ہے. یہ ہمارے لیئے ایک اشارہ ہے. اگر ہم آپس میں دست گریبان رہے تو پھر وہ دن دور نہیں کہ پورا بلوچستان افلاس کا شکار ہوجائے.

آج کوئٹہ ریزیڈنشل سکول و کالج کے طلباء بلوچ, پشتوں اور باقی قوم جو بلوچستان میں بستے ہیں، پشتون کلچر ڈے کو ایک ساتھ مناکر اتحاد کا ایک مثالی کردار ہیں. ان طلباء کا پشتون کلچر پر یکجہتی ان کرداروں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے جو انگریز کے تقسیم کرو حکمرانی کرو کے پالیسی کو اپنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں. ان طلباء کے یکجہتی دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اب بلوچستان کے لوگ کسی سردار, نواب اور میر و معتبر یا نام نہاد وزیر مشیر کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے. ترقی کے نام پر مزید بے و قوف نہیں بنیں گے. اب بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوان خود اپنے مستقبل کو بنائیں گے. بلوچستان کی ترقی میں اب کسی کو رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دیں گے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔