تعلیم سے محروم بچے اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
خالق کائنات کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان کی پہلی درسگاہ اسکا گھر ہوتا ہے جہاں اسکی پرورش کی جاتی ہے۔ جس سے اسے ایک خاص طرح سے سوچنے اور عمل کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے.
شعور عطا کرنے والی اور پستیوں سے اٹھا کر آسمانوں کی بلندیوں تک لے جانے والی تعلیم ہی ہے۔ یورپ میں اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ تو افلاطون نے یونان میں قائم کیا تھا لیکن بعد میں 330 قبل مسیح میں مصر کا شہر اسکندریہ وجود میں آنے کے بعد درس و تدریس کا مرکز بن گیا اور اس کو “دانش کا گہوارہ” کہا جانے لگا.
تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اس سے نہیں چھین سکتا اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلئے ترقی کی ضامن ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکے.تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے. تعلیم کا اولین مقصد ہمیشہ انسان کی ذہنی ،جسمانی او روحانی نشونما کرنا ہے.
گذشتہ دن ایک دوست سے رابطہ ہوا تو انہوں نے ایک ایسے اہم نقطے کو میرے سامنے اٹھایا جس سے ہمارا ایک نسل جو قومی مقصد کی خاطر منزلِ آزادی کے حصول کی خاطر رواں قومی جھد کے دوران ایران و افغانستان ہجرت کرتے ہوئے انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دو وقت کی روٹی تو انہیں نصیب ہے لیکن ہم نے اس جانب کبھی نہیں سوچا کہ ریاست پاکستان کی بربریت سے تنگ آ کر ان راجی جھدکاروں کے اہل و عیال یا وہ لوگ جو براہے راست ریاست کے عتاب میں آئے اور بہ حالت مجبوری ہجرت کر گئے، ان کے بچوں کی زندگیاں پستی کی جانب محوِ سفر ہیں، ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلے رک چکی ہیں، اگر اس طرح چلتا رہا تو یقیناََ یہ بلوچ قومی تحریک اور مستقبل میں معرضِ وجود میں آنے والی بلوچ ریاست کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوگا.
ہماری سیاسی و قومی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہر اس بلوچ سیاسی کارکن کو یہ سوچنا ہوگا کہ کس طرح ہم اس نسل کو بچا سکتے ہیں یقیناََ ان ممالک میں موجود چند ایسے دوست ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں لیکن دوسری جانب ہمارے لئے بھی کچھ ذمہ داریاں ہونی چاہئیں کہ وہاں موجود ان تمام بچوں کو تعلیم کی جانب راغب کریں ان کے لئے وہ راہیں تلاشیں جن کا زریعہ یورپ و خارج میں بیٹھے سیاسی دوست بخوبی ایک کمک و مدد کی شکل میں کرسکتے ہیں.
یورپ میں بیٹھے ہمارے تمام سیاسی کارکنوں اور پارٹیوں کو یک جہت ہو کر اس معاملے کو دیکھنا ہوگا کیونکہ جن جن ممالک میں بلوچ مہاجرین کی شکل میں رہ رہے ہیں وہاں ان کے لئے تعلیمی سہولیات کا کوئی بندوبست نہیں گو کہ اس کسمپرسی کی حالت میں چند دوست وہاں موجود ان بچوں کو جو ہمارے مستقبل کے معمار ہیں ان کو اپنی حد تک اپنے گنجائش سے پڑھا رہے ہیں لیکن وہ سلسلہ محدود پیمانے ہر ہے اگر ہوسکے تو اس سلسلے کو ہم جیسے سیاسی کارکن ہی پائیدار بنا سکتے ہیں بشرطیکہ کہ ہمیں اس جانب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا. کیونکہ اگر ہماری یہ نسل تعلیم کے زیور سے آراستہ نا ہوا اور اسی طرح کسمپرسی اور تنگی سے زندگی گزارتا رہا تو یقین جانیں دشمن کے وہ عزائم کہ جن کی وہ تکمیل چاہتا ہے وہ از خود پورا جاتا ہے کیونکہ جب ایک نسل تباہی کی جانب سفر کرے گا تو نا زمین رہے گی نا منزل ملے گا اور نا ہی جدوجہد کے باقی زرائع سود مند ثابت ہونگی.
آئیں آج ہی ہم سب یہ عہد کریں کہ اس سنجیدہ مسئلے کو ہم سمجھیں گے اور اس کے لئے نئی راہیں تلاشیں گے “بلوچ” بن کر نا کہ گروہیت میں رہ کر مزید تقسیم در تقسیم سے اپنے اہم ذمہ داریوں سے غافل رہیں گے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔