تاریخ کے پلٹتے اوراق
تحریر: سلمان حمل
دی بلوچستان پوسٹ
مظبوط قوت ارادی کمٹمنٹ اور شعوری فیصلے فاصلوں کو مٹاتے جائیں گے ۔ منزل کی جانب کاروان محو سفر ہے ہزاراں مشکلات مصائب کارواں کے ساتھ ساتھ ہمسفر ہیں۔ مگر بلند حوصلوں کے مالک رہبروں نے کچھ اس طرح رہبری کا فرض نبھایا، جب تک ارض زمین پر مظلومی و محکومی کا جنگ لڑا جائے گا ان کے کردار و گفتار عملاً بلوچستان کے پہاڑوں میں ہمیں کمانڈ کرتے رہیں گے۔ ہمیں دشمن کے سازشوں، اپنوں کے ساز باز اور خاموشی سے دستبردار ہونے کی طویل داستان سے روشناس کرتے رہینگے۔ اور عمل سے وابستگی و فرض شناسی کا درس دیتے رہینگے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب جانے انجانے میں تحریک کو کمزور، نوجوانوں کے ذہنوں میں الجھن اور مایوسی پیدا کی جارہی تھی۔ ہرسو بیگانگی کا ماحول تھا قومی جھدکار عمل سے کوسوں دور سوشل میڈیا پر زمینی حقائق کے برعکس بلوچ جہد پر کیچڑ اچھالے جارہے تھے۔ مگر ورق پلٹا بازی کا رخ بدل گیا کارکن بھانپ گئے کہ اب اِن( سوشل میڈیا کے غیر ضروری مباحثوں) سے کچھ نہیں ہونے والا اب عملاً یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اتحاد و اتفاق کے راستے اپنانے ہونگے تو اس تمام دورانیے میں ایک دور اندیش رہبر کی ضروت تھی جو قوم کے ساتھ سوچ سکے کہ آگے کیا کرنا ہے ۔ بقول فریرے مظلوموں کا لیڈر وہ ہوتا ہے جو قوم کے ساتھ سوچتا ہے وہ جو قوم کیلئے سوچتے ہیں وہ دراصل مظلوموں کے لیڈر نہیں ہوتے ہیں اُن کیلئے پہلا انتخاب ذات ہوگا اور دوسرا قوم ۔ مثلاً میرا کیا ہوگا، یہ نہیں سوچتے کہ قوم کا کیا ہوگا۔ تو ایسے میں ایک عظیم رہبر نے یہ کرکے دکھایا کہ ہم قوم کے ساتھ سوچتے ہیں۔ وہ سمجھ گیا کہ قوم کیا چاہتا ہے جھدکار کیا چاہتے ہیں اور اس وقت کیا کرنا ضروری ہے؟ وہ سمجھ چکا تھا ان تمام سوالوں کا حل انہوں نے تلاش لیا تھا۔ انہوں نے ٹھان لی تھی کہ اب ورق بدلنا ہوگا اور بدل دیا اتحاد و اتفاق کیلئے راستے ہموار کرنا شروع کردیئے ۔ بلآخر کامیاب ہوئے اور نوجوان جھدکاروں میں جیسے کسی نے نئی روح پھونک دی۔
نوجوان وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوئے جس سے پہلے ہچکچا رہے تھے کہ قومی تحریک کا کیا ہوگا؟فیصلے ہوتے گئے اوراق بدلتے گئے سخت سے سخت فیصلے ہوئے ۔
سب سے پہلے رہبر نے فیصلہ کیا ریحان جان فدا ہوگئے اگرچہ یہ ریحان کا اپنا فیصلہ تھا شعور کی بلندی تھی قومی تحریک سے کمنٹمنٹ تھا مگر بالواسطہ یا بلاواسطہ سلیکشن تو عظیم رہبر کا تھا ۔ تاریخ ایک نئے موڑ میں داخل ہوا پنّے پلٹتے گئے رئیس، رازق، اضل آئے، اسد کچکول، حمل اور منصب نمودار ہوکر سرخرو ہوگئے اور اب بھی تاریخ کہ یہ ورق بدلتے جائینگے ۔ اور ہمارے ذہنوں پر اپنے نقوش چھوڑتے جائینگے کیونکہ اب ورق پلٹ چکا ہے بازی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے فیصلے شعوری ہونگے اور نتائج دور رس ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔