بی ایس او کا کردار اور طلباء کی لاچاری
تحریر: رحیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی تحریک اور اس طویل قومی جدوجہد پر اگر ہم ایک طائرانہ نظر دوڑائیں تو ہمیں یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ فیصلے کے لحاظ سے قومی تحریک میں سب سے اہم فیصلے بی ایس او آزاد نے لیئے ہیں جبکہ اگر ہم کارکردگی کے حساب سے بھی دیکھیں تو بی ایس او کے جوانوں اور جہدکاروں نے قومی فکری اور شعوری سوچ کو بلوچستان کے ہر گھر میں پہنچایا ہے۔ تحریک کو ایک طبقے سے نکال کر اس کو ایک قومی تحریک کی صورت میں سامنے لایا ، یہ بی ایس او کی ہی سوچ ہے جو آج مجھ سمیت ہزاروں بلوچ نوجوان اپنی قومی شعور سے آگاہ ہیں اور آزادی کی تحریک کا ادراک رکھتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق جدوجہد کا حصہ ہیں اور قلم اٹھا کر اپنی بے بسی اور محکومیت پہ لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی ایس او کی فکر ہے کہ آج ذاکر مجید بلوچ جیسے ہزاروں بلوچ فرزند ریاستی ٹارچر سیلوں میں اپنی قومی آجوئی کیلئے اذیت برداشت کررہے ہیں۔ یہ وہی نظریہ ہے جس پہ سنگت ثناء بلوچ جیسے لاتعداد بلوچ ورنا اپنی زندگی کو قربان کرچکے ہیں۔ یہ وہی فکر ہے جس پہ آج بھی بلوچ سرمچار کامیابی سے دشمن کا دلیرانہ مقابلہ کررہے ہیں۔ یہ وہی راستہ ہے جس پہ ہر طبقہ فکر کے لوگ متحد ہوکر مختلف طریقے سے تحریک ء آزادی کا حصہ ہیں۔
اس کے علاوہ بی ایس او کے نام سے دو اور ادارے بھی موجود ہیں(اس میں ایک اور بی ایس او کا اضافہ تین چار نام نہاد سوشلسٹ نے ڈال دیا ہے) لیکن اُن کا سیاسی طریقہ کار اور حکمت عملیاں بلوچ قومی مفاد کے بجائے قومی نقصانات کے سبب بنے ہیں، جو نوجوانوں کو یکجاء کرتے ہوئے انہیں قومی شعور دینے کے بجائے انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں، جس سے مجموعی طور پر قوم مفادات کو زک پہنچا ہے جو پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کے طابع دار ہیں۔ میرے خیال سے ان کی کارکردگی بلوچ سیاسی مفادات کے نفی ہے جنہوں نے نوجوانوں کو منتشر کرتے ہوئے انہیں سیاسی شعور و سوچ فکر اور نظریئے سے محروم رکھا ہے جبکہ ان کی غیر سیاسی قیادت کی وجہ سے ان کے سرکلوں میں شامل لاشعور طلبہ و طالبات قومی سوچ و فکر سے محروم ہیں لیکن غیر سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے آج طلباء پارلیمنٹ جیسے مفاد پرست ٹولے کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں، بی ایس او پر پابندی کا فائدہ اٹھا کر انہیں نے طلباء کو غیر سیاسی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج انہی کہ غیر سیاسی اور بی ایس او مخالف کارنامے ہیں کہ نوجوان نمود و نمائش فوٹو سیشن، ذاتی زندگی میں مگن ہیں جبکہ قومی سوچ سے محروم ہیں اور قومی جدوجہد سے وابستگی کے بجائے زاتی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا کردار بلوچ طلباء سیاست میں بلوچستان کی سیاست میں BAP کے مترادف ہے۔
انکی سطحی سوچ کی وجہ سے نہ ان میں فیصلہ لینے کی صلاحیت ہے اور نہ قائدانہ بلکہ ان میں ایک ہی سوچ زندہ ہے اور وہ ہے ذاتی مفاد۔ انکی سیاسی فیصلے ہمیشہ پارٹیوں کے میٹنگز میں ہوتے ہیں کہ کیسے انہیں استعمال کیا جائے اور انکی دوسری بڑی نقصان یہ ہے کہ ان کے سارے فیصلے بلوچ نوجوانوں کو تقسیم در تقسیم کی جانب لے جاتی ہیں، ان کے غیر سیاسی اور بےعلمی سرکلوں کی وجہ سے ان کے سرکلوں کے نوجوان انتہائی غیر سیاسی بن چکے ہیں۔
3 دن پہلے بلوچ طلبا کو پنچاب یونیورسٹی اور سر سید یونیورسٹی میں ایک سازش کے تحت پنجابی انتہا پسند مذہبی گروہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے بلکہ چوتھی دفعہ ہے ۔ جس کا نہ حل نکالا جارہاہے اور نہ ہی کوئی حل نکالنے کی دلچسپی دکھائی دے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پہ مذمتی بیان کے بغیر کوئی عملی اقدام نہیں ہو رہاہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ جو دھڑیں ہیں انکو ابھی تک انکی پارٹیوں نے فیصلے لینے کی اجازت نہیں دی ہے۔ تو یہ کیسے آگے آئیں گے؟ اگر بی ایس او ازاد2008یا 09 کی طرح سرفیس سیاست پہ ہوتا تو آج یہ فیصلہ ہوچکا ہوتا، جس سے نہ صرف پنجاب میں پڑھنے والے بلوچ طلبا و طالبات کو فائدہ ہوتا بلکہ کسی بھی یونیورسٹی میں پڑھنے والے بلوچ اسٹوڈنٹس کو فائدہ ہوتا۔ لیکن وقت و حالات کی ناسازگار ہونے کی وجہ سے وہ سرفیس سے غائب انڈرگراؤنڈ کام کرتے ہوئے قابض کی انتہائی جبر و وحشت کا سامنا کرنے کے باوجود ایک منظم و مستحکم تنظیمی ڈھانچے اور سیاسی و باشعور اور قومی سوچ سے لیس کارکنان شکل میں موجود ہے۔
آج یہ وقت و حالات کی لاچاری ہے کہ بی اسی او آزاد سرفیس سے غائب ہے۔ اگر آج بی ایس او جیسے ادارے سرفیس پولیٹیکس کے حصہ ہوتے تو قطعا بلوچ طلباء اس طرح لاچار نہ ہوتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔