تعلیمی اداروں میں بلوچ کش پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کو جرم قرار دے کر تنگ کی جاتی ہے لیکن اداروں میں لسانی اجارہ داری کرپشن پر تمام ادارے برابر کے شریک کی حیثیت سے خاموش ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین نزیر بلوچ نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے بیوٹمز( آئی ٹی یونیورسٹی) بلوچ قوم کے لئے بجائے افرادی قوت پیدا کرنے اور تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کی استحصال کا سبب بن رہی ہے لسانی تعصب تنگ نظری اور بلوچ مخالف سازشوں کو تقویت پہنچانے والے وائس چانسلر کو غیر قانونی طور پر ایک دہائی کا زائد عرصہ ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر بجائے ایک استاد کا کردار ادا کرنے کے ایک فاشسٹ لسانی بادشاہ کا کردار ادا کرکے بلوچ مفادات کو ادارے میں نقصان پہنچا رہا ہے، پہلے چلتن کیمپس کو ناکام کرکے فنڈز کو ایک کھنڈرات کی نذر کی گئی اب ادارے میں بلوچ نمائندگی کو شجر ممنوع قرار دی جاچکی ہے، داخلوں میں بلوچ طلباء کی تعداد صرف 13 فیصد، یونیورسٹی ملازمین میں بلوچوں کی تعداد صرف 7 فیصد ہے جن میں اکثریت صرف کلاس فور کی ہے اس کے باوجود ادارے میں گنتی کے برابر اساتذہ کرام اور طلباء کو ذہنی تشدد، لسانی فاشزم کا شکار بنایا جاتا ہے۔ لسانی فاشسٹ اجارہ داری کے تحت حالیہ بھرتیوں میں بھی بلوچوں کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے صرف وی سی اور ان کے ٹولے کے لوگوں کو نوازا گیا۔
انہوں نے مزید کہا ہے تعلیمی اداروں میں بلوچ کش پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کو جرم قرار دے کر تنگ کی جاتی ہے لیکن اداروں میں لسانی اجارہ داری کرپشن پر تمام ادارے برابر کے شریک کی حیثیت سے خاموش ہے صرف بلوچ ہونے کو ہی جرم قرار دی گئی ہے بلوچ قوم کے خلاف ہر ناجائز کام کی پشت پناہی بلوچ قوم کو مزید احساس محرومی کا شکار بنا رہی ہے، بی ایس او آئی یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن پر کسی صورت خاموش نہیں رہے گی۔