بلوچ مائیں اور قاتل ریاست
تحریر۔ نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ماں کا تصور ذہن میں آتے ہی اس عظیم ہستی کے سامنے سرنگوں ہونے کو جی چاہتا ہے. جو کائنات، ستاروں، سیاروں، کہکشاوں کی جنم داتا ہے، اسی طرح عورت کو قدرت نے انسان پیدا کرنے کا شرف بخشا ہے۔ انسان جس قدر بھی ترقی کرے لیکن ماں کی خدائیداد صلاحیتوں کو تخلیق کرنے میں ناکام رہیگا۔ قدرتی صلاحیتوں کے اس پیکر میں، صبر و استقلال، پیار، محبت، خلوص، تکریم، جذبہ ایثار جیسی انمول جذبات کے اظہار کا عین قدرتی قوانین اور اصولوں کے مطابق سر انجام دینے کی اہلیت ہے۔ قدرت کا یہ کرشمہ سماجی مظالم کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر و بربریت کے سامنے ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی ہے۔
بیٹی کی پیدائش سے ماں جنم لیتی ہے۔ عورت ذات پیدا ہونے سے قبل ہی موت کی وادیوں اور امتحان گاہوں سے ہوتی ہوئی زندگی سے موت کی جانب محو سفر ہوتی ہے۔ ایک بھی ایسا لمحہ، ساعت نہیں گذرتا، جب اس دیوی کو کسی جان لیوا آزمائش کا سامنا نہیں ہوتا۔ بلوچ وطن میں جاری ریاستی تشدد سے جہاں انسانی المیہ جنم لے چکی ہے وہیں پر متاثرین میں عورتوں کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ماں ، بہن ، بیوی، سمیت عورت ہر روپ میں مختلف اذیتوں کو سہتے سہتے ریاستی جبر کا مسلسل سامنا کررہی ہے۔ دوسری جانب قبضہ گیر و نااہل ریاست کی لاپروائی، کرپشن سے پیدا شدہ صورتحال، تعلیم کی کمی، ہزاروں ماوں کو ہسپتال و اسکول کی بجائے قبرستان پہنچا چکی ہے۔ زچہ و بچہ دونوں کے قتل پر بلوچ وطن میں ماتم برپا ہے۔ قاتل بہر صورت ریاست ہی ہے۔
ریاست بلوچ ماوں پر ہر طرح کی نفسیاتی و جسمانی تشدد کا ذمہ دار ہے۔ بلواسطہ یا بلاواسطہ ریاست بلوچ ماوں کا قتل عام کررہی ہے۔ جبری گمشدگیوں کے شکار آنکھوں کے چیھننے والی نور سے لیکر سڑکوں و چوراہوں پر گولیوں سے چھلنی نوجوان لاشوں کی داستانوں کے پیچھے ماؤں کی چاک مانگ و سینہ کوبی کے مناظر ہیں۔ ریاستی بے راہ رویوں سے موت کے شکار ہر ماں کا قاتل ریاست ہے۔ کوئی بلوچ بلا کیسے اپنی ماں کے قاتل کو نذر انداز یا فراموش کرے گا؟ کیا یرقان و کینسر جیسی بیماریوں سے بلوچ ماوں کا قتل عام نہیں ہو رہا؟ کیا بے تعلیمی و بے شعوری کے سبب کاروکاری جیسے واقعات کی ذمہ دار ریاست نہیں، جواب ہاں میں ہے تو ذمہ دار کون ہے؟ کیا قابض ریاست ذمہ دار نہیں؟ جسکے سبب بلوچستان اکیسویں صدی میں بھی تعلیم و صحت کی سہولیات، دوایوں اور اسپتالوں و اسکولوں سے محروم ہے۔ سینکڑوں بلوچ مائیں ہسپتال نہیں پہنچ پاتے راستے میں دم توڑ دیتی ہیں، جو مریض ہسپتال پہنچ پاتے ہیں وہ دوایوں کے خرچ کو دیکھ کر واپس ہوجاتی ہیں اور بستر مرگ پر پڑے پڑے جان دے جاتی ہیں۔
قابض ریاست کا کردار بلوچستان میں ہمیشہ سے حاکم کا رہا ہے، جو قتل عام کا بازار گرم کیئے رکھتی ہے۔ اس لیے ہر ماں کے لخت جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ذمہ دار بھی ریاست ہی ہے۔ ماں کو دیئے ہوئے ہر آنسو کا ذمہ دار قابض کے ادارے، اسکی وحشی فوج اور ایجنسیاں ہیں۔ بلوچ ایک گلاس پانی کیلئے سو سال تک وفادار رہتا ہے تو اپنے جسم سے بہنے والے خون کیلئے کتنا دشنمنی کر سکتا ہے، یہ شاہد آج بھی تحقیق طلب ہے۔ بقول شاعر بلوچ اپنا بدلہ سو سال تک نہیں بھولتا تو پھر کیسے کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ بلوچ بیٹے اپنی ماوں کو دیئے ہوئے ریاستی زخم و درد کو فراموش کریں گے۔
عورت ذات انسانی وجود کو جہنم دینے والی واحد ہستی ہے۔ گو کہ انسانی شعور و فکر اب تک اس مقام پر پہنچ نہیں پائی ہیکہ عورت اور مرد میں سے پہلے کس کا جنم ہوا ہے۔ لیکن آج موجودہ شکل میں عورت ہی انسانیت کی جنم داتا ہے۔ عورت آج بھی ہزاروں سال بعد اپنی اصل مقام حاصل نہیں کر پائی۔ عورت کسی بھی سماجی، سیاسی، معاشی طوفان کی لپیٹ میں آکر سمندر برد ہونیوالی پہلی جنس ہوتی ہے جسے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانیت کی ابتداء سے لیکر تا دم تحریر ہوا کی یہ بیٹی مقتل سجا رہی ہے۔ قتل در قتل ہوکر بھی زندگی سے کوسوں دور رشتوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ ہوس کے چیل اسکی عزت و ناموس کو نوچ نوچ کر تار تار کررہی ہیں۔ ننھی منی پری جیسی معصوم بچیوں سے لیکر سو سال کی بوڑھی اماں تک اکیلے چلنے پھرنے سے ڈرتی ہیں۔ اسکول و اسپتال بھی انکے لیئے محفوظ نہیں۔ طلاق کو سولی بناکر عورت کے گلے میں ہمیشہ کیلیے طوق غلامی ڈال دی جاتی ہے۔ شادی کے بعد عورت کو گھر سے یہ کہہ کر رخصت کی جاتی ہے کہ اب یہ گھر تمھارا نہیں۔ ایک ہی لمحے میں عورت کو مہاجر بنا دی جاتی ہے۔ مرد کل بھی اس ذات کی احساسیت سے بے بہرہ تھے اور آج بھی اجنبی ہیں۔
عورت سیتا ہونے کے باوجود آج بھی ظلم و جبر کا سامنا کررہی ہے۔ مال و جائداد کیلئے ستی ہو، تیزابی حملوں سے مسخ شدہ چہرے ہوں یا کاروکاری کے کالے قانون کی نشانہ بنتی ہوئی بے نشان قبریں یہ سب عورتوں کی ہی ہیں۔ زمانہ قدیم کی فرسودہ روایات سے لیکر موجودہ مسخ شدہ مذہبی قوانین، غیر ترقی پسند و جھوٹے رسم و رواج، عورت کو حقیر قرار دینے والا ہر رسم اس صنف نازک پر ہونے والی ہتھیا چار میں شامل جرم ہے۔ عورت نے ہر وہ کردار نبھایا جو سماج اور معاشرے نے اسکو سونپا، ماں، بہن، بیوی، عورت ہر امتحان میں کھری اتری ہے۔ مگر پھر بھی ظلم و وحشت، بربریت اس ذات پر ہمیشہ کی جاتی رہی ہے۔ معاشرتی طوفان سے لیکر سیاسی، سماجی و قومی انتشار میں سب سے پہلے جبر کی ابتداء و بدحالی کا شکار عورت کو بنا دی جاتی ہے۔ بڑے بڑے محلوں کی چار دیواریوں سے لیکر برقعے کی سیاہ و سفید چادروں تک سب عورت کو ہی قید میں رکھنے کیلئے بنائی گئی ہیں۔
عورت جائیداد نہیں بلکہ خود وارث ہے۔ بیٹی بوجھ نہیں ماں باپ کا خیال رکھنے والی احسان ہے۔ عورت کے اس کردار کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ تہذہب و تمدن کی اس دیوی کو اسکی پہچان کو اپنانے میں مدد کرنی ہوگی۔ عورت کے درد کو سمجھنے کیلئے منٹو بنا پڑے گا۔ سماجی ، معاشرتی و قومی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ عورت کو ہر روپ میں اسکا مقدس مقام دیا جائے۔ آبادی کے اس نصف حصے کو سوچ اور قومی نظریئے کو پروان چڑھانے کا موقع دیا جائے۔ تاکہ بلوچ عورتیں دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام میں برابری کی بنیاد پر مقام پاسکیں۔ ریاستی جبر کی وجہ سے متاثرہ ماؤں بہنوں کی کردار کو اجاگر کیا جائے تاکہ عورت ذات کی ان قربانیوں کو نسل در نسل مثال بناکر پیش کیا جاسکے۔ عورت کو اسکی حقیقتوں کے ساتھ قبول کرنے سے ہی بلوچ ایک سیکولر، قوم پرست قوم کہلائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔