بلوچ قوم کی بزگی اور رہنماوں کے شان و شوکت – واحد صمیم | اکبر آسکانی

500

بلوچ قوم کی بزگی اور رہنماوں کے شان و شوکت

تحریر: واحد صمیم اور اکبر آسکانی

دی بلوچستان پوسٹ

قلم کو مہذبانہ لباس پہنا کر اخلاق کے دائرے کے خول میں بند کرتے ہوئے جذبات اور احساسات کی وادیوں میں حقیقت پسندانہ روپ کی جھلک کو سوچ و ظفر موج کی لہروں پر لفظوں کو تہراتے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے پر سیاہی سے نقش و نگار کے رنگت کی وادی کو مکمل کرنا چاہو تو آلہ خطاطی فن کی نوک کو زمینی آقاوں کے معاشرتی بتوں کے زنجیروں میں جکڑتے ہوئے محسوس کروں تو ان کڑیوں کو کمزور و لاچار ہاتھوں سے ہلانے کی کوشش سعی مگر وجود کے مضبوط مرکز کی جولانکیوں سے للکار کی آواز کو تسکین روح کی دوا سمجھتا ہوں۔

سرکس کے لئے لائے جانے والے یا تفریح گاہ کے کسی پنجرے میں ہاتھی کے کم عمر بچے کو سدھانے کے ابتدائی تربیتی مراحل میں اسکے پیروں کو آہنی غلامی میں پازیب کی طرح اشاروں پر ناچنے کے لیے ڈال دیا جاتا ہے، تب اس ہاتھی کے بچے کو قدرتی ماحول سے بیگانہ کرنے اور مصنوعی رواج کو نافذالعمل کرنے کے حکم سے اس کے جنیاتی فطرت اسے بغاوت پر آمادہ کرتا ہے شب روز کی مزاحمت کے اس ماحول میں قید کم عمر اور طاقت کے عروج سے پہلے کہ وہ اس محدود نقل وحمل کے لکیر کو روندھ ڈالنے لاکھ کوششوں کے باوجود کسی ایک مضبوط کڑی کو جدا نہیں کرسکتا، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہاتھی کے ہیبت و جوانی کا جوش اور بھاری بھرکم جسامت کے ہوتے ہوئے مسکن کے بنائے گئے قوانین اور پیروں میں ڈالے گئے اس زنجیر کو جو اب اسکی زور آوار طاقت کے صرف ایک جھٹکے کا محتاج ہے لیکن اس کی سوچوں سے آگے اس کے دل و دماغ پہ یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ اب وہ اس قید عزاب تنہائی سے چھٹکارا نہیں پاسکتا اور پیروں میں یہ بیڑیاں غلامی طوق کی ہار کی طرح مقدر بن چکی ہے جسے وہ اپنی پوری قد آوار جسامت اور طاقت کے ہوتے ہوئے بھی ان کڑیوں کو ہلا نہیں سکتا اور اسکی رہی سہی مدافعتی مزاحمتی قوت غلامی سوچ کی جکڑ میں ناپید ہوکر رہ جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت بہترین آمریت سے بھی بہتر ہے اور کیوں نہ ہو یہ جمہوریت اور عوامی رائے مساواتی نظام کی بنیادی جز ہے اس لیئے جب بھی آمرانہ نظام دور حکومت رہا ہے اس نے ہمیشہ رائے عامہ کو اپنے حق میں لاکر حتی المقدور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ عوام کی اکثریت اسکے ساتھ ہے آمرانہ طرز حکومت کی یہ مجبوری رہی ہے کہ چاہے آئین کی بساط کو لپیٹ دے لیکن اپنے ارد گرد عوامی نمائندوں کا جم غفیر اکھٹا رکھے اور اس کوشش میں وہ ناقابل یقین حد تک کامیاب رہے ہیں اگر کسی پولیٹیکل پارٹی خصوصاً وفاق میں اقتدار کے مزے لینے میں مدہوش پارٹی کے دھڑن تختہ پر اسکے چیدہ چیدہ اکابرین نے آمرانہ نظام کی طوالت پر اور عوامی غم و غصہ کی بڑھتی ہوئی لہر کو بھانپتے ہوئے جمہوری اقدار کا تاج اپنے سر سجانے کی بھرپور کوششں کی تاکہ وہ دوبارہ بدلتے ہوئے حالات میں عوامی رائے عامہ کو اپنی مظلومیت کی سحر انگیزی میں لاکر اقتدار کے سہانے خواب کو حقیقی روپ میں اسطرح لائے جیسے انکی زندگی کی خزاں میں بہار آجائے
*
صوبہ بلوچستان کا ذکر آتے ہی زہن میں دو چیزیں فورا آجاتی ہیں اول یہ کہ نیچرل ریسورسیز، جغرافیائی محل وقوع طویل نیلگی ساحلی پٹی گویا قدرت نے اس خطے کو ہرشے سے مالامال کیا ہے دوئم اسکی پسماندگی غربت و افلاس بنیادی ضرویات زندگی سے محرومی کا نقشہ تصویر بن کر ابھر کر سامنے آجاتا ہے لیکن اس وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے دوسرے صوبوں کے برعکس نسبتاً کم آبادی والے اس سرزمین پر پچھلے چند دہائیوں سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جس نے اقتدار کی لیلیٰ کو عشق کی انتہاء میں زندگی کی زینت سمجھ کر رکھا ہے۔

ہوا کے دوش پر مرکز میں بننے والی حکومتی پارٹی کو چڑتے سورج کی طرح اسکی آشیر باد کو غنیمت جانا، اٹھارویں ترمیم سے پہلے اس امیر صوبے کے غریب عوام کو اپنے ارکان اسمبلی کے نوے فیصد سے زائد وزراء اور مشیروں کا بوجھ اپنے کمزور و لاچار کندھوں پر اٹھانا پڑا، سردار نوابوں کی طرح مڈل مین کے طبقے نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے نہانے تک کا موقع گنوانے نہیں دیا، نیشنلسٹ پارٹیوں کے پرکشش نعرے صوبے کے عوام کے ساتھ ہونے والے احساس محرومی کے رونے دھونے اور انتہائے ہمدردی کے جوہر نایاب سمجھنے والے ڈیڈھ ڈیڈھ اینچ کی مسجدوں میں امامت کرنے والے منشور و تنظیمی آئیں اور مقاصد میں یکتائے نظریات کے ہوتے ہوئے بزگ و بے کس قوم پر ترس کھانے کو تیار نہیں چونکہ اصل رکاوٹ تو سربراہی کے نام پر چودھراہٹ کی ہے جہاں عوام پیاسی ہو زندگی گزارنا چٹانوں سے زیادہ سخت ہو کہیں کسی کے پاس رہنے کےلیے دو گز زمیں نہ ہو اور کہیں کوئی لاکھوں ہزاروں ایکڑ، رقبے، پہاڑوں ندی نالوں کو اپنی حق حاکمیت سمجھتا ہو لہہتاتے کھیتوں بھیڑ بکریوں اور وہاں بسنے والے انسانوں کو اپنی رعیت گردانتا ہو وہاں جمہوریت اور جمہوری سوچ چھ معنی دار؟

بلوچ قوم کے بقاء و تشخص اور اقلیت کا راگ الاپنے والے کراچی میں آباد چالیس لاکھ سے زائد بلوچی بولنے والے جن میں نوے فیصد سے زائد اکثریت وہاں بھی سرکاری ملازمین و مراعات اور بے روزگاری میں مبتلا ہیں انکو اپنی اصل وطن کی طرف راغب کرکے ایسی پلانننگ کیوں نہیں کی جاتی کہ وہ یہاں آکر بسے اور قومی بقاء و تشخص اور اقلیت میں بدلنے کا خوف ٹل جائے،اگر پشتون خود کو افغان کہلواتے ہوئے افغانوں کی آباد کاری میں تعاون اور سپوٹ کرتے ہیں تو یہ انکی اعلی اخلاص کی نشاندہی ہے دوسروں کی آباد کاری تو کھٹکتی ہے لیکن اپنوں کے راستے محدود کردیے جاتے ہیں۔ بلوچ قوم پرستی کا نعرہ لگانے والوں نے آج تک کراچی جیسے بین الاقومی شہر میں آباد بلوچ اکثریتی علاقوں سے بلدیاتی انتخابات تک میں کونسلری کی ایک سیٹ تک نہ لاسکے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قوم پرست لیڈروں کو بلوچ قوم سے نہیں بلوچستان کے وسائل سے لگاو ہے سی پیک کی ترقی اور ثمرات نے آنے والے وقت میں معاشرے پر گرفت رکھنے والے مختلف قوتوں کو جو صرف اپنی شخصی و خاندانی طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ہیں ان دوغلے پن کے نعروں کی حقیقت کو ایسے آشکار کیا ہے کہ کہ مستقبل قریب میں انکو اپنی نام نہاد چودھراہٹ کے لالے پڑ گئے ہیں۔

جن میں مثبت تنقید براداشت کرنے کی سکت نہ ہو، جو صرف اپنی زاتی بینک بیلنس کوئٹہ شہر میں حویلیوں کراچی کے پوش علاقوں میں بنگلوں سے دبئی کے فلیٹوں اور لندن و نیویارک کے پرتعیش زندگی کےعادی ہوچکے ہوں، اپنی شخصی لاو لشکر لگژری گاڑیوں کے قافلے مسلط گارڈوں کے جھتوں میں اپنی طاقت کے روب و دبدبے میں خود کو برتری کے نشے میں مدہوش ہوں، وہ کیسے ایسی بزگ و لاچار قوم کا مسیحا بن سکتا ہے؟ جو اپنی تقریروں میں نظریاتی شعور کے لکیروں کو مساواتی درس کے ناپ تول میں بہترین مقرر کا روپ دھار کر عملاً زندگی میں کسی عام بلوچ کو برابری کا مقام دینے کو تیار نہیں وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا آنے والے وقتوں میں گیم چینجر کے پہیوں میں یہ قوتیں بھی ایسے گھوم جائیں گے جو بڑی تیزی کے ساتھ صوبے میں جاری عوام پر مسلط ایسی طاغوتی تکوں کی احرام کو قصہ پارینہ بنا دیگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔