بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز طلبا کا مظہر – اکمل بلوچ

241

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز طلبا کا مظہر

تحریر: اکمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎گذشتہ روز بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز کے خلاف لکھی جانے والی تحریر آنکھوں کے سامنے سے گذری جس میں موصوف نے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز کے تعلیمی سرکلز کو بورژوا بیٹھک کا لقب دیکر ان نوجوانوں کی تعلیمی جدوجہد کو طنز کا نشانہ بنایا ہے جو بلوچستان سے باہر پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں کے تعلیمی حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور ان طالب علموں کو یکجا کئے ہوئے ہیں۔

‎موصوف نے اپنے تحریر میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بلوچ کاونسلز پر جو طنز کیا ہے وہ دراصل سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔

‎موصوف کو شاید یہ پتہ نہیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کاونسلز سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے تعلیمی اداروں میں اپنے خدمات کو برو کار لاتے ہوئے بلوچستان کے طالب علموں کو یکجا کرکے قومی ثقافت، تاریخ اور ادبی پروگرام کے علاوہ تعلیمی ترقی کے لئے جدوجہد کرنا شامل ہے۔ تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا اور انکی کئیریر کونسلنگ کے ذریعے انہیں مختلف فیلڈز حوالے معلومات فراہم کرنا تاکہ اپنے خوبیوں اور اپنی چوائس کے مطابق متعلقہ شعبے کا انتخاب کریں تاکہ مستقبل میں اپنے سرزمین کو صیح معنوں میں ترقی کے راستوں پر چلا سکیں۔

‎جب دو ہزار دس کے بعد بلوچستان کے طلبا و طالبات کے لئے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں نشستیں مختص کی گئیں تو ان نشستوں کے حصول کے لئے بلوچ طالب علموں کو متعدد مشکلات درپیش تھے، جو انکے مشکلات کو مد نظر رکھ کر بلوچ قوم دوستوں نے پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں بلوچ کاونسلز کی بنیاد رکھی۔ کونسل کے قیام کے بعد دوستوں نے اپنی بساط کے مطابق بلوچ طالب علموں کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد کی ۔گذشتہ سال بلوچ کونسل ملتان نے ایک سو بیس سیٹوں سے اکیانوے بلوچ طالب علموں کا داخلہ کروایا۔ مستقبل میں یہی طالب علم بلوچ اور بلوچستان کی حقیقی بنیادوں پر خدمت کرسکیں۔

‎بلوچستان کے حالات، وہاں کے طالب علموں کی پریشانی کا دکھ اور احساس ہمیں بھی ہے اور ہم اس درد اور احساس کو لئے اپنے سر زمین سے دور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں اپنے علم کی پیاس بجھا رہے ہیں تاکہ مستقبل میں ہماری خدمات سے بلوچ عوام مستفید ہوسکیں اور جو تکلیف ہم برداشت کررہے ہیں وہ ہمارے آنے والے نسلوں کو نہ بھگتنا پڑے۔

‎ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں سیاسی سرکلز میں شرکت کرنے کے بجائے تعلیمی ادارے کے اندر ایک ایسے تعلیمی گروپ کی بنیاد رکھی جن کا مقصد علم و شعور سے لیس ہو کر بہترین پوزیشن لینا تھا اور آگے چل کر اسی گروہ نے ملائشیا کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا لیکن موصوف سیاست سیاست کی رٹ میں ہماری بنیادی ترجیح کو مسلسل رد کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔

سمجھ نہیں آرہا کہ موصوف کی تحریر کا مقصد بلوچ طالب علموں کو قبائل میں تقسیم کرنا ہے یا وہ کسی اور سیاسی مقصد کے حصول کے لئے کسی خامی کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔

سیاست مفادات کے حصول کا نام ہے اور بلوچ طالب علموں کا سب سے اہم مفاد تعلیم حاصل کرنا اور اسے فروغ دینا ہے اور ہم اپنے حصے کا کام بہترین انداز میں سر انجام دے رہے ہیں۔ اگر آپ کونسلز پر صرف تنقید اس لئے کریں گے کہ آپ کی اپنی کارکردگی بلوچستان کے طالب علموں کو یکجا کرنے میں صفر فیصد ہے یا آپ بلوچ طالب علموں کو متحد کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

موصوف سیاست صرف سرکلز کے انعقاد کا نام نہیں بلکہ سیاسی حرکیات کے لئے ایک سوسائٹی کا قیام درکار ہے جہاں سیاسی معاملات پر ڈسکشن کے ساتھ ساتھ سیاسی مسلئوں کو اجاگر بھی کیا جاتا ہے لیکن آپ کی تنظیم میں بلوچ طالب علموں کی تعداد پچاس سے بھی کم ہے۔اس لئے کسی کے بھی گریبان میں جھانکنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے خامیوں کو بہتر بنانے کی سعی کریں اور بلوچستان کے منتشر طالب علموں کو یکجا کرکے انہیں تعلیم کی طرف راغب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

‎بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل نے حالیہ دنوں بی ایس او پجار اور بی ایس او محی الدین کے دوستوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں بلوچ طالب علموں کو یکجا کرکے ادبی و ثقافتی پروگرامز کے انعقاد کو ضروری سمجھا۔

‎بلوچ کاونسلز متعصبانہ سیاست کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی گی اور اپنی تمام تر توجہ بلوچ طالب علموں کی یکجہتی پر مرکوز رکھی گے کیونکہ بلوچ کاونسلز ہی بلوچ طالب علموں کی یکجہتی کا واضح مظہر ہے اور اگر کوئی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بورژوائت کا لقب عطا کرتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ بس انہیں اپنے صفحوں میں بہتری لانے کی تلقین کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔