بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے لاپتہ افراد کے بازیابی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، جتنے لوگ گذشتہ سال کے دوران بازیاب ہوئیں اس سے زیادہ لوگوں کو لاپتہ کی گئی گوادر میں حالیہ بلوچ بہن ہانی بلوچ کو انکے منگیتر کے ساتھ لاپتہ کرکے بعد مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنائی گئی اور اب تک انکے منگیتر لاپتہ ہے جوکہ اس بات کا ثبوت ہے بلوچستان کے حوالے سے طاقت کے استعمال لوگوں کو خوفزدہ کرکے خاموش کرانے کے پالیسی میں کوئی کمی نہیں آسکی بلکہ ظلم و جبر کے پالیسی کو مزید شدت دی گئی ہے ایک طرف سیاسی اکابرین کو نواب میرامان اللہ خان زہری کے شکل میں شہید کرکے سیاسی عمل کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کی گئی تو دوسری جانب اب بلوچ خواتین کے خلاف بھی ظلم و زیادتیوں کو تقویت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا ہے بی ایس او انسانی حقوق ملکی و عالمی قوانین کے خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اگر کسی کے خلاف کوئی الزام ہے تو عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جاسکتی ہے لیکن اسطرح کے مظالم سے بلوچ قوم کو کسی صورت خاموش نہیں کی جاسکتی۔
ترجمان نے کہا بلوچ قوم کے حوالے سے نام نہاد میڈیا اور دیگر باشعور کہلانے والوں طبقے مکمل طور پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ،ہانی بلوچ گذشتہ کئی دنوں سے بلوچ مسنگ پرسن کیمپ میں سراپا احتجاج ہے لیکن اس حوالے سے نام نہاد میڈیا ایک خبر تک جاری نہیں کرسکی اسی طرح نام نہاد دانشور اور دیگر مکاتب فکر کی خاموشی قابل افسوس ہے ،انسانی حقوق کے تنظیموں پرنٹ الیکٹرانک میڈیا اور تمام مکاتب فکر سے اپیل کرتے ہیں کہ ہانی بلوچ اور دیگر بلوچ دشمن مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں۔
ترجمان نے مزید کہا ہے ایسے واقعات کا اعلی حکومتی سطح پر نوٹس لینے اور تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اصل حقائق کو سامنے لایا جاسکے۔