بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے کہاہے کہ موجودہ حکومت صوبے میں امن وامان برقرار رکھنے اور عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی میں مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے عوام بے یار ومدد گار،ظلم وستم قتل وغارت گیری کے نشانہ بنتے جارہے ہیں جس کی واضح ثبوت 17اگست کی رات کو زہری کے علاقے میں بلوچستان قومی تحریک کے سرکردہ رہنماء اور بی این پی کے بانی ساتھی نواب امان اللہ خان زہری،ان کے14سالہ پوتھے میرمردان خان زہری، 2ساتھی سکندر گورشانی اور مشرف زہری کی بہیمانہ قتل ہے،آج تک ایف آئی آر میں درج ملزمان کی عدم گرفتاری اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ حکمران ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کی سیاسی قومی سماجی معاشی گھمبیر مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے صوبے میں مذہبی منافرت،فرقہ واریت،لسانی تضادات اور قبائلی جھگڑوں کو ہوا دے کر اپنے آمرانہ لوٹ کھسوٹ پر مبنی کرپشن ودیگر نارواپالیسیوں کو تقویت دیناچاہتے ہیں ان ناروا پالیسیوں کے خلاف بی این پی جو کہ صوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی سیاسی تنظیمی نمائندہ جماعت ہے جس کو تمام اقوام اور یہاں کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے آواز بلند کریگی۔ ان خیالات کااظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ،مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری،ضلعی ڈپٹی جنرل سیکرٹری محمد لقمان کاکڑ، ضلعی سیکرٹری اطلاعات یونس بلوچ،اسد سفیر شاہوانی،دوست محمد بلوچ،صدام حسین جتک،لعل محمد بلوچ نے کلی خیزی میں پارٹی کے سینئر رہنماء دوست محمد بلوچ کی رہائش گاہ پرمنعقدہ کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے بلوچستان کی باشعور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صوبے میں جاری قتل وغارت گیری،سیاسی رہنماء اور کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ،مذہبی منافرت، دہشت گردی،فرقہ واریت کے خلاف بی این پی کے زیراہتمام 22ستمبر بروز اتوار 2بجے ہاکی گراؤنڈ زرغون روڈ کوئٹہ میں منعقدہ احتجاجی جلسہ عام میں بھرپور اندازمیں شرکت کرکے یہ ثابت کردے کہ یہاں کے باشعور عوام صوبے میں مزید دلخراش سانحات برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی اور ایسے واقعات کے رونماء ہونے سے لوگوں کی صبر کاپیمانہ لبریز ہوتاچلاآرہاہے مزید کسی قسم کی پیدا کردہ سانحات پر کسی بھی صورت میں خاموشی اختیار نہیں کرینگے اور ہر سطح پر سیاسی وجمہوری انداز میں عوام کی طاقت وحمایت سے آواز بلند کرتے ہوئے حکمرانوں کے اصلی اور حقیقی قومی ایشوز کو چھپانے اور دبانے کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی خاطر تحریک چلائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں بنیادی مسئلہ قومی حقوق،واک واختیار،حق حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کا سیاسی مسئلہ موجود ہے حکمرانوں نے ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ظلم وجبر قتل وغارت گیری کی آڑھ میں اپنے لوٹ کھسوٹ کی پالیسیوں کو پروان چڑھایا لیکن 21ویں صدی میں مزید بلوچ عوام ایسے مصنوعی تضادات،انارکیت،بحرانوں سے بخوبی آگاہ ہیں وہ مزید اپنے قومی حقوق،ساحل وسائل پر اپنے واک واختیار کی جدوجہد سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انہوں نے کہاکہ آج بھی بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کا دور دورہ ہے اس نام نہاد صوبائی جمہوری دور حکومت میں گزشتہ رات بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر وممتاز سماجی کارکن فوزیہ بلوچ اپنی والدہ کی عیادت کیلئے اپنے اہل خانہ کے دیگر خواتین کے ساتھ کراچی جارہی تھی اوتھل چیک پوسٹ پر پولیس نے انہیں بلاجواز کئی گھنٹوں تک روک کر گاڑی کی چیکنگ کے بہانے ذہنی کوفت سے دوچار کیا یہ عمل ہمارے صوبے کے روایات کے خلاف اور انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتاہے یہ عمل اس بات کی غمازی کرتاہے کہ آج بھی صوبے کے تمام معاملات ان قوتوں کے اختیار میں ہے جو گزشتہ 70سالوں سے بلوچستان کو ایک کالونی کی طرز پر چلارہے ہیں اور صوبے میں قانون نافذکرنے والے اہلکار بلوچستا ن کے کونے کونے میں یہاں کے لوگوں کو چیکنگ کے بہانے روک کر تکالیف دیتے ہیں اور اس کے زد میں ہماری خواتین بھی محفوظ نہیں ہے صوبے میں پولیس گردی اپنے عروج پر ہے،بی این پی یہاں کے عوام کی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر واقعہ کی تحقیقات کرکے اصل حقائق اور محرکات سے عوام کو آگاہ کیاجائے۔اس موقع پر 22ستمبر کے جلسہ عام کو کامیاب بنانے کیلئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئی اور علاقے کے پارٹی عہدیداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے علاقائی جلوسوں کی صورت میں جلسہ عام میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں۔اس موقع پر پارٹی کے رہنماء حاجی اللہ بخش لہڑی،ظاہر بنگلزئی،حاجی عبدالخالق، پارٹی کے یونٹ سیکرٹری محمد نعیم بلوچ سمیت دیگر پارٹی عہدیداران اور علاقے کی معتبرین موجود تھیں۔