بلوچستان میں تعلیمی بحران -شمس بلوچ

271

بلوچستان میں تعلیمی بحران

 تحریر : شمس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں عوام زندگی کی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں، ذخائر، وسائل اور ساحل کے مالک ہونے کے بوجود یہاں کے باشندے کسمپرسی کی زندگی جی رہے ہیں، بالخصوص بلوچ طلباء جو اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر صرف اورصرف تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں انھیں بھی تعلیمی اداروں میں بنیادی ضروتوں سے محروم کردیا گیا ہے ۔

اگر ہم بلوچستان کی تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیں تو بلوچستان کے طالب علموں کو اسکول سے لے کر ایم فل، پی ایچ ڈی تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلوچستان میں صرف ایک یونیورسٹی ہے جس میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں،اور بلوچستان یونیورسٹی میں 40 سے 45 ڈیپارٹمنٹ ہے جن میں پورے بلوچستان سے ہر سال کم و بیش  پندرہ ہزارطلباء داخلہ لینے کے لئے فارم جمع کرتے ہیں، جن میں سے پانچ یا چھ ہزار طالبعلموں کو داخلہ ملتا ہے، اور باقی تمام مایوس لوٹ جاتے ہیں، پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچستان کے طالب علم اس ظلم اور نہ انصافی کے شکار ہیں۔

اگر خوش قسمتی سے کسی طالب علم کا داخلہ ہو جاتا ہے تو وہ پانچ چھ سال کے پروگرام کو ختم کرنے کے بعد بھی دو تین سال تک دربہ در کی ٹوکریں کھانی پڑے گی ، کیونکہ بلوچستان میں تین یا چار سال بعد ہی صرف چند نوکریاں آتی ہیں اور اس کے لئے لاکھوں کی تعداد میں پورے بلوچستان سے طالب علم فارم جمع کرتے ہیں جو دہائیوں سے بے روزگاری کا شکار ہوتے ہیں مگر یہ نوکریاں پھر وہی بڑے لوگوں کی سفارش کی نظر ہو جاتی ہے یا اقرباء پروری غریبوں سے ان کا حق چھین لیتی ہے اور بلوچستان کے غریب اور لا وارث لوگ پھر مایوس ہوکر بے یار و مددگار اپنے گھر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

بلوچستان کے طالب علموں کے لئے ایک ایسا ماحول بنایا گیا ہے جن میں میٹرک سے لیکر ایف ایس سی اور پھر اسی طرح بی ایس یا باقی پروگرام کے لیے ہر قدم پہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فارم جمع کرانے سے لے کر ہر روز کے ڈگری کے تصدیق  کروانے تک طلبا کو اپنی پڑھائی سے زیادہ ایسے غیر ضروری معاملات پر وقت ضائع کرنا پڑتا ہے۔

بلوچستان میں اس وقت سب سے زیادہ میڈیکل کے طالب علموں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

میڈیکل ڈیپارٹمنٹ جس میں ایم بی بی ایس،ڈی پی ٹی،یا بی پارمیسی ہو جن کے طلباء کی تعداد آٹھ نو ہزار ہے مگر ان کے لیے صرف ایک یونیورسٹی ہے، باقی تین کالجز اور ان میں بھی دو بیچز پڑھ رہے ہیں، بلوچستان یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ اینڈ سائنس میں ہر سال سات ہزار طالبعلم فارم جمع کرتے ہیں ،اور ان میں سے صرف تین سو سے لیکر چار سو کے قریب طلباء منتخب ہوتے ہیں ۔اور ان سیٹوں کے لئے طلباء کو ہزار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھچلے تین چار سال سے میڈیکل کے نئے آنے والے طالب علموں کے ساتھ اسی طرح ہوتا آرہا ہے کہ پہلے بڑی مشکل سے وہ ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں، پھر جب ٹیسٹ ہوتا ہے تو وہ اس طرح ہوتا ہے جیسا بلوچستان میں کچھ علاقوں کی میٹرک کی امتحانات ہوتے ہیں اور ان میں اچھی خاصی بےظابطیگیاں ہوتی ہے، پھر ان طلباء کو کئی ماہ تک سڑکوں کا سہارا لینا پڑتا ہے پھر انکو مایوس کرکے واپس اپنے گھر بھیج دیا جاتا ہے تاکہ وہ مایوس ہوکر پڑھائی سے دور رہیں ،اگر خوش قسمتی سے کچھ طلباء کی سیٹ ہو بھی جائے تو پھر وہاں کبھی ہاسٹل، اور کبھی پیپرز کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کافی مشکل سے وہ کالج میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں نہ کوئی لائیبریری ہے اور نہ وہاں  معیاری تعلیم دی جاتی ہے ۔

پورے بلوچستان میں ایک ہی لائبریری ہے(صوبائی لائبریری)، جس شال ( کوئٹہ) کے مختلف علاقوں کےطالب علم مطالعہ کےلئے آتے ہیں کیونکہ یہ بلوچستان کا واحد سیمی اربن شہر کہا جا سکتا ہے اور یہاں بھی لائبریری صرف ایک ہے اور طالب علم ہزاروں کی تعداد میں ہیں جہاں  بیٹھنے کے لیے لائیبریری میں جگہ نہیں ہوتی، طالب علموں کو مجبور ً پرایویٹ تعلمی اداروں کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔

اس تمام صورتحال میں ذؐہ داری ہمارے عوامی نمائندوں کی بنتی ہے  کہ وہ  ان مسائل کا سنجیدگی سے نوٹس لے، تاکہ پڑھنے کے شوقیں تعلیم حا صل کر سکے اور انہیں اچھے اور بہترین ادارے ہمہ وقت میسر ہوں، اور اسی طرح تعلیم سہولہات میسر آنے اور تعلیم کے رجحان کو پروان چڑھانے سے ہی  ہم جہالت اور پسماندگی سے نجات حاصل کرسکیں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔