بلوچستان میں پاکستان آرمی اور اس خفیہ اداروں کے ہاتھوں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے جنیوا میں سمینار کا انعقاد کیا گیا۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے کے ارسال کردہ رپورٹ کے مطابق سترہ ستمبر کی شام پانچ بجے جنیوا میں یو این کے دفتر میں بلوچ وائس ایسوسی ایشن کی جانب ایک سائیڈ ایونٹس میں بعنوان “بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی”اور بلوچستان میں ریاستی خونریزی ایک پروگرام کیا گیا جس میں بلوچ وائس ایسوسی ایشن کے صدر منیر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی سفاکیت اور ظلم سے کوئی بھی محفوظ نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ چار روز سے جاری آپریشن خاران جھاؤ اور دوسرے علاقوں میں آپریشن کی حالیہ لہر میں اب تک سینکڑوں لوگ حراست بعد فوجی کیمپوں اور ٹارچر سیلوں میں منتقل کئے جاچکے ہیں جہاں ان پر انسانیت سوز تشدد کیا جا رہا ہے۔ اب تک جتنے لوگ رہائی پاچکے ہیں ان میں اکثریت کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔
ایونٹس میں بلوچ دانشور رائٹر واجہ صدیق آزاد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان گذشتہ بھتر سالوں سے جل رہا ہے لیکن پاکستانی ریاست کی چالاکیوں سے وہاں میڈیا مکمل بلیک آؤٹ ہے بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے پے در پے آپریشنز اور جاری جبر سے بلوچ اپنے علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
انہوں مزید کہا کہ یو این او جیسے اہم ادارے میں ہم اس امید پر آئے ہیں کہ یہاں انسانی حقوق کے علمبردار ہماری مدعا سنیں گے لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسا ماحول ہے کہ ہماری تقسیم در تقسیم والے رویے کی وجہ سے ہمیں کوئی نہیں سن رہا۔
ایونٹس میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند رہنما سردار شوکت کشمیری نے کہا کہ ہم کشمیری بلوچوں کی طرح گذشتہ بھتر سالوں سے پاکستان جیسے غیر فطری ریاست کے ہاتھوں کشمیریوں کی نسل کشی دیکھ رہے ہیں ہمارا درد ایک ہے ہم بہ حیثیت کشمیری مظلوم دنیا کے ہر فورم پر بلوچ قوم کے ساتھ کھڑے رہینگے اس امید کے ساتھ کہ ایک دن ہمیں آزادی نصیب ہوگی۔
اٹالین صحافی اور رائٹر فرانسسکا جو ایشین مسائل کے ماہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے چالاک اور شاطر ریاست نے اپنی چالاکیوں سے مغرب سمیت امریکہ جیسے طاقت ور ریاست کو اپنی جانب مبذول کیا ہے لیکن یہ ناممکن نہیں کہ بلوچ سمیت پاکستان میں موجود باقی تمام مظلوم قوم پاکستانی دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے پیچھے ان کے ہاتھ کے شواہد کو اکھٹا کرکے ان کے اصل چہرے کو ایک منظم پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں اس سے آپ لوگوں کا خالص مسئلہ جو کہ انسانی بحران سے تعلق رکھتا ہے وہ سامنے آئے گا۔
ایونٹس میں جرمن رائٹر کلاؤڈیا وائڈلش اور بلوچ سیاسی رہنماء علی ارجمندی نے بھی خطاب کیا ۔
انہوں نے کہا کہ میرا بھائی احسان ارجمندی گذشتہ گیارہ سالوں سے پاکستانی عقوبت خانوں میں ہے ہمیں معلوم نہیں وہ زندہ ہیں کہ نہیں لیکن میں یہاں نا صرف احسان ارجمندی بلکہ ان تمام لاپتہ بلوچوں کا نمائندہ ہوں جو ریاستی عقوبت خانوں میں ریاستی جبر سہہ رہے ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں جاری پاکستانی ظلم کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔