براس ایک بھرپور قوت
تحریر: مہرگان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی آزادی کیلئے جاری حالیہ مزاحمت نے اس وقت تاریخی موڑ لیا جب عملی مزاحمت میں شریک مزاحمتی کمانڈران بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر اور بی ایل اے کے سربراہ شہید استاد اسلم بلوچ نےاپنے طویل اختلافات کو بھلا کر قوم کی بکھری مزاحمتی قوت کو یکجا کرنے کا فیصلہ کرلیا، انسانی فطرت میں خود پرستی و خود شناسی کا بھرپور عنصر پایاجاتا ہے لیکن استاد اسلم بلوچ نے یہاں اپنے تاریخی کردار کے سبب انسانی فطرت و رویئے کو بھی مختلف شکل میں بلوچ سماج میں پیش کیا، وہ مزاحمت جس کو گرم رکھنے و کامیاب بنانے کیلے سردار زادوں سے لیکر ہر طبقہ فکر نے جو لہو پیش کیا جو لازوال قربانی دی، اس قربانی کے تسلسل کو برقرار استاد اسلم بلوچ و ڈاکٹر اللہ نذر کے موثر حکمت عملی نے آج نہ صرف برقرار رکھا بلکہ بلوچ مزاحمت میں ایک نئی قوت پیدا کردی، بلوچ قومی مزاحمت میں بی ایل یف نے جس مشکل دور میں اپنے قوت کو یکجا رکھا اور ریاستی فورسز کے خلاف مزاحمت کو بھرپور انداز میں جاری رکھا بلاشبہ اس کی کریڈٹ بی ایل ایف کے چند اہم کمانڈروں کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے براس جیسی اتحاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بی ایل اے قیادت کے درمیان اختلافات میں استاد اسلم بلوچ نے حالات و واقعات کے پش نظر جو تاریخی فیصلہ کیا ہر ذی شعور و سیاسی بالغ انسان ایسے فیصلوں کی حمایت کریگا، جو تقسیم ایک ہم خیال طبقے کو یکجا کرسکتا ہے۔
میرے نظریئے کے مطابق وہ تقسیم نہیں بلکہ جہاد ہے جس نفسانفسی و مایوسی کے عالم میں براس وجود میں آیا اس امید نے بلوچ وطن کے خاطر سرپیکار عملی جہد کاروں سمیت ہر بلوچ کے اندر ایک نئی جہد و امید پیدا کردی ہے، اتحاد جب فکری بنیادوں پر بنتی ہیں تو سماج کے اندر ایک نیا جہد و ولولہ پیدا کرتی ہیں، ایسے اتحاد جو صرف مجبوری یا کسی کے دباو میں بنائی جاتی ہیں وہ کسی سماج میں تبدیلی کیلئے کارگر ہرگز ثابت نہیں ہو سکتے ہیں، براس فکری و ہم خیال دوستوں کا بلوچ قوم کیلئے ایک انمول تحفے سے کم تصور نہیں کیاجاسکتا، براس کی قوت میں بی آر اے کی ایک ایسے دھڑے کی شمولیت سے اس اتحاد میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوگیا، جو حقیقی معنوں میں بلوچستان کے گراونڈ میں ایک مزاحمتی قوت رکھتا ہے، ایسے حالات میں براس کی لیڈر شپ پر اس مزاحمتی قوت کو یکجا رکھنے اور مزاحمت کے تسلسل کو بر قرار رکھنے میں بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ قوم کے اس امید کو کیسے بر قرار رکھے گی، جو اس نے براس جیسی مزاحمتی قوت سے وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
اس حقیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایک مختصر عرصے میں براس کی مزاحمتی کاروائیوں نے قبضہ گیر ریاست کو شدید پریشانی و خوف میں مبتلا کردیا ہے، ویسے بھی مزاحمتی تنظیموں کی انفرادی کاروائیوں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن قوم و نوجوان طبقہ جو امید براس سے لگا بیٹھی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہیکہ قوم حقیقی اتحاد و قومی مزاحمت سے پر امید ہے، یہ حقیت دنیا پر آشکار ہو گئی ہیکہ بلوچ مزاحمتی قوت اب ناقابل شکست قوت بن چکی ہے، دنیا ہمیشہ طاقت و قوت کی طرف دیکھتی اور اسے اہمیت دیتی ہے، بلوچ کے مزاحمت نے دنیا پر فدائئیں حملوں سے لیکر براس کے حملوں تک دنیا کو باور کروایا کہ بلوچ جہد ایک حقیقی سمت تک پہنچ چکاہے، جو نام نہاد دانشور بلوچ جہد کو تامل ٹائیگر سے تشبیہہ دے رہے تھے، جو مزاحمت کی منتشر قوت کا رونا رو رہے تھے میرے خیال میں براس کے قیام کے بعد اب وہ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ ان کے تجزیات و خیالات غلط ثابت ہو چکے ہیں کیونکہ دنیا میں بے شمار ایسے لیڈر شپ پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے اپنے عمل کو کردار سے قوم جنگ آزادی کو ناکامی و شکست سے بچایا۔ ایسے مثال بلوچ تعریک میں آپ کو استاد اسلم کی شکل میں ملے گی جنھوں نے براس بنانے میں اپنے مرکزی کردار ادا کرنے کے ساتھ اپنے جوان سالہ بیٹے کو وطن پر قربان ہونے سے نہیں روکا بلکہ اسے حوصلہ دیا بلوچ قوم براس کی کی شکل میں ایک منظم مزاحمت کی شکل میں اپنی قومی آزادی کو ضرور حاصل کریگا یہ میرا ایمان ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔