انقلاب، آزادی اور بلوچ قومی تحریک کا مستقبل
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی سماج کی حرکیات میں انقلاب یا آزادی کے کردار کو سمجھنے سے قاصر حضرات اسے انسانی تاریخ سے ہٹ کر کوئی موضوع بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کارل مارکس کے بقول انقلابات انسانی تاریخ میں اینجن کا کردار ادا کرتے ہیں یہ انسانی تاریخ کو آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔رہبر لینن اس حوالے سے مزید واضح کرتا ہے کہ انسانی تاریخ جو ایک بیل گاڑی کی مانند سست رفتاری کا شکار ہوتا ہے اسے ریل گاڑی کی تیز رفتاری انقلابی کیفیت فراہم کرتی ہے۔ انقلاب تاریخ انسانی کا وہ جست ہے جس میں ایک لمبا عرصہ ایک مختصر دورانیئے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ بظاہر جامد معاشرہ مقداری تبدیلیوں کے ایک فیصلہ کن سطح پر پہنچ کر معیاری تبدیلی کی صورت اختیار کرتا ہے۔
انقلاب یا آزادی کا مقصد صرف بالادست سے اقتدار کی منتقلی نہیں بلکہ انسان کی تخلیق نو کا مسئلہ ہے۔ ہر جگہ انقلاب کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے کیونکہ ہر سماج کی اپنی زمینی حقائق ہوتے ہیں اور ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی انقلابی طبقہ انقلابی نظریئے کی رہنمائی میں انقلابی طریقہ کار پر کارمرز ہوتے ہوئے انقلاب کی راہ کو ہموار کرتا ہے۔
جنرل شیرو مری نے موجودہ تحریک کے احیاء سے پہلے اس بات کا دوراندیشانہ اظہار کیا تھا کہ اس مرتبہ بلوچ طویل خاموشی کے بعد اٹھینگے گوکہ گوریلا طرز جنگ کیوبا اور ویتنام طرز ہوگا لیکن جنگ کی ترتیب و تشکیل بلوچ گلزمین کے زمینی حقائق کے مطابق ہونگے۔ جنرل شیروف کی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی اہمیت کو سمجھنا لازم ہے کہ ہمیں اپنے زمینی حقائق کا گہرا ادراک رکھنا ہوگا تب ہی ہم انقلاب یا آزادی کے لیے راہ ہموار کرنے کے قابل ہونگے۔
انقلاب یا آزادی کوئی ناممکن بات نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں ایسے واقعات بھرے پڑے ہیں جہاں مخلص و منظم کمٹڈ نظریاتی انقلابیوں نے تاریخ کی دھارا کو انقلاب کے لیے ہموار کردکھایا۔
انقلاب فرانس سے لے کر انقلاب روس تک اور چین میں آزادی سے لے کر ویتنام تک کامیابی اس ایقان کا نتیجہ تھا کہ انقلاب کے ذریعے ہی محکوم سماج کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ انقلاب غیر متزلزل جدوجہد کا نتیجہ ہے، یہ مزاحمت کی لمبی داستان ہے جس میں قربانیوں کی طویل فہرست ملتی ہے جہاں انقلابیوں نے سخت سے سخت حالات میں بھی سر جھکانے کی بجائے انقلابی آدرشوں کے لیے خود کو قربان کیا اور وہ سرخرو ہوئے۔
بغیر انقلاب یا آزادی کے کسی بڑے تبدیلی کی توقع احمقانہ بات ہوگی کیونکہ تاریخ میں تبدیلی کے لیے شعوری طور پر جدوجہد لازم ہے اور اس کے لیے انقلابی طریقہ کار کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ انقلابی جدوجہد عوام کو ذہنی طور پر باشعور بناتی ہے، نوآبادیاتی نظام کے مجرمانہ کردار کو آج اگر بلوچ سماج میں واضح کیا گیا تو یہ بلوچ جہدکاروں کا انقلابی کردار ہے جنہوں نے بلوچ دھرتی پر قبضہ گیریت کو چیلنج کیا اور عملا برسرپیکار ہیں۔
بلوچ آج بھی آزادی و انقلاب کی تشنگی لئے نیشنلزم کے نظریہ پر عمل پیرا ہے۔ بلوچ جدوجہد کا مقصد ایک نئے آزاد سماج کا قیام ہے جس میں نوابادیاتی نظام کے خاتمہ سمیت بلوچ قوم کا شعوری کردار اولیں ترجیح ہے۔ بلوچ جہد نے بلوچ سماج پر بہت گہرے اور نہایت مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔
ہم کسی خوش فہمی کا شکار نہیں لیکن جہد مسلسل کسی صورت بے نتیجہ نہیں ہوتی کیونکہ یہ انسانی تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے۔ اس مرتبہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بلوچ تھک ہار کر چپ بیٹھ جائیگا یا بلوچ تحریک کو ریاستی جبر دبا پائیگی تو یہ نہایت ہی بچگانہ سوچ ہے کیونکہ اب بلوچ جدوجہد تنظیمی بنیادوں پر مستحکم ہوچکی ہے اور آج کا بلوچ جہدکار بقول استاد اسلم آفاقی انقلابی اصولوں کے لیے قربانی دے رہا ہے۔
بلوچ سماج میں تبدیلی بغیر انقلابی جدوجہد کے ممکن نہیں اور اس بات کا تعین بلوچ جہدکار کرچکا ہے۔ بلوچ قوم بالخصوص بلوچ نوجوان بھی انسانی تاریخی عمل کو سمجھتے ہوئے بلوچ سماج میں جدوجہد کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔