امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 9 – مشتاق علی شان

191

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 9
مصنف: مشتاق علی شان

کیبرال کی شہادت اور صبحِ آزادی

1973کے آغاز میں امیلکار کیبرال اس پوزیشن میں آ چکے تھے کہ وہ گنی بساؤ اور کیپ وردے کی آزادی کا اعلان کر سکیں۔ جنوری کے مہینے میں کیبرال اس حوالے سے کافی سرگرم تھے اور ان دنوں جمہوریہ گنی کے شہر کونکری میں مقیم تھے جہاں PAIGCکا دفتر بھی واقع تھا جو کسی زمانے میں PAIGCکا ہیڈ کورٹر ہوا کرتا تھا۔ ایک طرف کیبرال ان تیاریوں میں مصروف تھے کہ صبحِ آزادی میں دو چار گام ہی رہ گئے تھے تو دوسری طرف دیگر پرتگیزی نوآبادیات میں بھی جنگِ آزادی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ گنی بساؤ اور کیپ وردے کی آزادی جس کا مطلب ناگزیر طور پر انگولا، موزمبیق اور ساؤتوم کی آزادی اور سوشلسٹ انقلابات تھے بلکہ اس سے پورے براعظم کوآزادی اور انقلاب کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لینا تھا۔ سفید سامراج جس نے افریقہ کو ”تاریک برِ اعظم“ کا نام دیا تھا، اب اپنے بہادر اور قابل فرزندوں کی قیادت میں مارکس، اینگلز، لینن اور اسٹالین کی لافانی تعلیمات سے سرخ ہوا چاہتا تھا۔

امیلکار کیبرال کو اعلان آزادی سے روکنے اور PAIGCکی جدوجہد کو سبو تاژ کرنے کے لیے خفیہ پرتگیزی پولیس PIDEنے سازش کا ایک جال بنا جس پر 20 جنوری 1973 کو کونکری میں عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔ 20 جنوری کی رات کو 10:30 بجے جب کیبرال اپنی بیوی کے ہمراہ پولینڈ کے سفارت خانے سے رات کے کھانے کی دعوت سے واپس آ رہے تھے تو PAIGC ہی کے بحریہ کمانڈرغدار Inocencio Kani کی قیادت میں مسلح افراد نے انھیں اغوا کر نے کی کوشش کی۔ اس موقع پر کیبرال نے ان غداروں پر خوب لعنت ملامت کرتے ہوئے مزاحمت کی تو غدار کانی نے گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے آزادی کے اس عظیم سپوت کو بے دردی سے شہید کر ڈالا۔ یوں کیبرال آزادی کے بہت سے متوالوں کی طرح اپنے لہو کا نذرانہ دے گئے مگر سامراج ان کو صرف جسمانی طور پر ہی ختم کرسکا کہ اس کی فکر کے چراغ آج نہ صرف افریقہ بلکہ دنیا بھر میں محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کے سینوں میں روشن ہیں۔ بے شک دنیا کے دیگر حصوں کے طرح افریقہ کے کتنے ہی سرفروش بیٹے دارکی زینت بنائے گئے مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ افریقہ تھے۔ افریقہ جسے کوئی نہیں مار سکتا۔ خود اپنی شہادت سے دو سال قبل جب ایک ساتھی نے کیبرال کو عظیم انقلابی اور اپنا ہیرو قرار دیا تھا تو اس موقع پر کیبرال نے کہا تھا کہ ”میرے ساتھی ٹونی گفرب نے کہا ہے کہ میں ایک عظیم انقلابی ہوں، یہ بات غلط ہے۔ میں ایک سیدھا سادہ افریقی ہوں اور اپنے زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق اپنے ملک میں اپنا فریضہ سر انجام دے رہا ہوں۔ میرے ساتھی نے کہا ہے کہ میں اس کا ہیرو ہوں، ہمارے ملک میں کوئی بھی ہیرو نہیں ہے، ہیرو صرف ایک ہے، افریقی عوم۔“ آج جب کیبرال کی شہادت کو3 4 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ان کی لافانی جدوجہد اور افکار نے انہیں دنیا بھر میں زندہ رکھا ہوا ہے اور یقیناََ وہ صبحِ انقلاب تک زندہ ہی رہیں گے۔ نوعِ انسانی کی ناگزیر منزل یعنی اشتمالیت میں بھی ان کا ذکر ان عظیم مبارزین کے ساتھ کیا جائے گا جنہوں نے نرکھ سے بھی اس گندی دنیا کو سورگ بنانے کے لیے اپنی آخری سانسوں تک جدوجہد اور مزاحمت کا علم بلند رکھا اور اس کا لہو لافانی سرخ پرچم کا حصہ بن گیا۔

بعد میں پرتگیزی آرکائیوز سے بھی اس سازش کی ساری تفصیلات معلوم ہوئیں کہ کس طرح پرتگال کی خفیہ پولیس نے PAIGCمیں موجود اپنے جاسوسوں کے ذریعے اس سازش پر عمل در آمد کیا۔ دراصل PAIGCمیں ایسے بہت سے لوگ بھی شامل تھے جوگنی بساؤ اور کیپ وردے کے اتحاد کے بارے میں کیبرال کے خیالات سے متفق نہیں تھے ویسے بھی PAIGCمیں گنی بساؤ کے افراد زیادہ تھے اور اس حوالے سے اختلافات بھی پائے جاتے تھے۔ پرتگیزیوں نے انہی اختلافات کو بنیاد بناتے ہوئے PAIGCکی جنگِ آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ سازش تیار کی تھی جس کے مطابق کیبرال کو اغواکر کے پرتگیزی خفیہ پولیس کے حوالے کیا جانا تھا تاکہ گنی بساؤ میں پر تگیزی سامراجیوں کو تحفظ مل سکے اور کیبرال کو گنی بساؤ اور کیپ وردے کے اعلان ِ آزادی اور یونین بنانے سے روک سکیں۔ منصوبے کے مطابق سازش میں شریک غداروں کو بعدمیں PAIGCپر مسلط کر کے اس ساری تحریک کو ہی کند کرنا تھا۔ خفیہ پرتگیزی پولیس کی اس سازش کے مرکزی کردارPAIGCکے دو غدار اراکین مومو اور اریسڈس باربوسہ تھے۔ انہیں تحریک کے ابتدائی زمانے میں پرتگیزیوں نے گرفتار بھی کیا تھا اور 1960 میں رہا کیے گئے تھے اغلب گمان یہی ہے کہ یہ اسی زمانے سے پرتگیزی سامراج کے ٹاؤٹ اور جاسوس بن گئے تھے جبکہ کیبرال کو اغواکرنے کی ذمہ داری غدار کانی کو سونپی گئی تھی جس نے اپنے مقصد میں ناکام ہونے کے بعد افریقہ کے عظیم سپوت کو شہید کر ڈالا۔ PAIGCقیادت اس سازش سے واقف تھی مگر اسے اندازہ نہ تھا کہ سازشی اس انتہاپر بھی جا سکتے ہیں. دوسری بات یہ تھی کہ کیبرال تحریک آزادی کے ممتاز اور غیر متنازع راہنما تھے جنہوں نے گنی بساؤ کے قبائل کو متحد کر دیا تھا اور جب آزادی کی منزل قریب تھی تو اس موقع پر وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کر کے اس اتحاد کے ٹوٹنے یا کمزور ہونے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سازشیوں کو موقع مل گیا مگر مادرِ وطن کے سپوت امیلکار کیبرال کو شہید کرنے والے یہ غدار اور خائن اپنے عبرتناک انجام سے نہ بچ سکے۔

جمہوریہ گنی کے عظیم انقلابی قائد اور گنی بساؤ اور کیپ وردے کی تحریکِ آزادی کے دوست و مددگارصدر احمد سیکوطورے جن کے وطن میں یہ گھناؤنا جرم ہوا تھا، وہ فوری طور پر حرکت میں آگئے اور مومو، باربوسہ اور کانی سمیت اس سازش میں شریک دیگر 43 افراد گرفتار کر لیے گئے۔ ان پر کونکری میں مقدمہ چلایا گیا اور مجرم ثابت ہونے پر ان تینوں سمیت دس افراد کو سزائے موت دی گئی یوں خس کم جہاں پاک کے مترادف سامراج کے یہ ایجنٹ اپنے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔

کیبرال نے ایک بار کہا تھا کہ ”کسی بھی شخص کو اس وقت تک اپنے کام کو مکمل نہیں سمجھنا چاہیے جب تک اسے اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس کی موت کے بعد بھی دوسرے ساتھی اس کے کام کو جاری رکھے گے۔“ کیبرال کی شہادت کے بعد بھی پرتگیزی سامراجی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے بلکہ ان کی شہادت نے کمیونسٹ گوریلوں کو ایسے آتش خو سرفروشوں میں تبدیل کر دیا جنہوں نے چن چن کر پرتگیزی سامراجیوں سے عظیم قائد کی شہادت کا بدلہ لیا۔ اس عرصے میں نہ صرف گنی بساؤ، کیپ وردے بلکہ انگولا ست موزمبیق اور ساؤتوم سے جزائر پرنسپے تک میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب سامراجی گوریلوں کی آتشِ انتقام میں جل کر بھسم نہ ہوئے ہوں۔ اب گنی بساؤ میں PAIGCکی قیادت امیلکار کیبرال کے بھائی لوئس کیبرال اور کیپ وردے میں ارستے ویز پریرا کر رہے تھے۔ اس موقع پر پرتگیزیوں نے فضائی حملے تیز کر دیے مگر امریکا سے حاصل کیے گئے پرتگیزی جہاز گوریلوں کے میزائلوں کے نشانے پر تھے جو اس موقع پر سوویت یونین نے انہیں فراہم کیے تھے۔ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے سوویت میزائل ہی تھے جنہوں نے پرتگیزی ائیر فورس کی کمر توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اب 35000 پرتگیزی افواج جو جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس تھی بساؤ شہر تک محدود ہو چکی تھی اور ان کی قیادت کرنے والے امریکی فوجی ماہرین لرزہ برا ندام تھے۔

یوں کامریڈ امیلکار کیبرال کی شہادت کے محض 8 ماہ اور چار دن بعد کامریڈ لوئس کیبرال نے 24 ستمبر 1974 کو گنی بساؤ اور جزائر کیپ وردے کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ جسے سوویت یونین، کیوبا اور دیگر سوشلسٹ ممالک سمیت غیر جانبدار ممالک نے فوری طور پر تسلیم کر لیا۔ یہی نہیں بلکہ امریکا کی بھرپور مخالفت کے باوجود اقوام ِ متحدہ کے رکن 80 ممالک نے گنی بساؤ اور کیپ وردے کا اعلان آزادی تسلیم کر لیا۔ یوں گنی بساؤ اور کیپ وردے کی قومی آزادی اور سوشلزم کا پھریرا ایک شان سے فضاؤں میں بلند ہوا۔

امیلکار کیبرال کے خواب نے حقیقت کا جامہ پہن لیا اور افریقہ کا یہ چھوٹا سا ملک کمیونسٹوں کی جراتِ رندانہ اور سرفروشی کی علامت بن گیا۔ فاشسٹ پرتگیزی حکومت نے گنی بساؤ اور کیپ وردے کے اس اعلان کو تسلیم نہیں کیا لیکن محض 7 ماہ بعد پرتگال میں فاشسٹ حکومت تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن گئی اور یوں افریقہ میں پرتگیزی استعماری راج ایک قصہئ پارینہ بن گیا۔

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ لوئس کیبرال املکار کیبرال کی شہادت کے بعد اچانک ہی PAIGCکی قیادت سنبھالنے کے لیے نمودار نہیں ہو گئے تھے اور نہ ہی یہ قیادت انہیں محض اس لیے سونپی گئی کہ وہ کیبرال کے بھائی تھے۔ دراصل لوئس کیبرال کا شمار PAIGCکے بانیوں میں ہوتا ہے اور وہ ان چند انقلابیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے امیلکار کیبرال کی قیادت میں PAIGCکی بنیاد رکھی تھی۔ گوریلا جنگ کے زمانے میں بھی ان کا شمار اہم ترین گوریلا رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ یعنی گنی بساؤ اور کیپ وردے کی جنگِ آزادی میں لوئس کیبرال کا وہی کردار تھا جو کیوبا میں کامریڈ فیڈل کاسترو کے بھائی اورآج کے سوشلسٹ کیوبا کے صدر راؤل کاسترو کا تھا۔ لوئس کیبرال نے پارٹی کی قیادت کسی تعلق، رشتے یا اس کی بنیاد پر ہمدردی کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی بے مثال جدوجہد، قربانیوں اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر حاصل کی تھی۔پارٹی نے اسی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں قیادت کے لیے منتخب کیا تھا جس سے وہ بخوبی عہدہ برا ہوئے۔

لوئس کیبرال 11 اپریل 1931 کو بساؤ سٹی میں پیدا ہوئے۔ امیلکار کیبرال کی طرح انہوں نے بھی ابتدائی تعلیم جزائر کیپ وردے میں حاصل کی اور بعد ازں پرتگال کے شہر لزبن سے Accountancy کی تعلیم حاصل کی۔ وہ طالبعلمی کے زمانے سے ہی آزادی کی تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے جس وقت PAIGC کی بنیاد رکھی جارہی تھی ان کی عمر 25 سال تھی۔لوئس کیبرال کی سیاسی تربیت امیلکار کیبرال جیسے عظیم انقلابی اور نظریہ دان نے کی تھی۔ ہر چند کہ وہ کیبرال کی سطح کے دانشور یا نظریہ دان نہیں تھے لیکن بطور ایک انقلابی گوریلا راہنما ان کا مقام بہت بلند ہے۔ ظاہر ہے کہ امیلکار کیبرال کا شماربیسویں صدی کے افریقہ کے چند ایک انقلابی نظریہ دانوں میں ہوتا ہے جب کہ ہر انقلابی نہ تو نظریہ دان ہوتا ہے نہ ہی یہ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ لوئس کیبرال ایک وطن پرست سوشلسٹ انقلابی قائد تھے جو انقلابی نظریات سے مکمل طور پر لیس تھے۔ وہ آزادی کے بعد اپنے فرائض سے بخوبی واقف تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔