امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 7 – مشتاق علی شان

267

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 7
مصنف: مشتاق علی شان

PAIGC بندوق بدست – حصہ دوئم

ہر چند کہ گنی بساؤ میں PAIGC کی یہ پہلی گوریلا کارروائی پرتگیزیوں کو کوئی بہت بڑا نقصان نہیں پہنچا سکی کیونکہ یہ محدود پیمانے پر کی گئی تھی البتہ اس کی گونج بساؤ سٹی سے لزبن تک سنی گئی۔ PAIGC گوریلے اگر اس موقع پر چاہتے تو پرتگیزی فوج و پولیس کی بجائے پرتگیزی آباد کاروں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنا سکتے تھے جو نسبتاََ آسان بھی تھا مگر ان کی بندوق کے پیچھے مظلوم قوموں کی آزادی اور انقلاب کا نظریہ تھا،ان کی تربیت فاشسٹ جنونیوں کے طور پر نہیں تھی ہوئی۔ امیلکار کیبرال برسرِ عام کہا کرتے تھے ”ہماری جدوجہد پرتگیزی قوم کے خلاف ہے اور نہ ہی یہ سفید فام انسانوں کے خلاف ہے بلکہ ہمارے دشمن صرف وہ ہیں جنھوں نے ہمارے وطن پر قبضہ کر کے ہماری آزادی غصب کر رکھی ہے۔“

ابتدا میں پرتگیزی حکام نے گوریلوں کی اس کارروائی کو کوئی زیادہ بڑا خطرہ تصور نہیں کیا بلکہ ان کا خیال تھا کہ یہ شاید دو سال قبل کیے گئے Pidjiguiti قتلِ عام کا ردعمل ہے۔ یہ بات پرتگیزی سامراج کے احاطہی تصور سے ہی باہر تھی کہ یہ محض چند سرپھروں کی چاند ماری نہیں بلکہ اس جنگ کا آغاز ہے جو جلد ہی گنی بساؤ کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کے راج کی بنیادیں ہلا دے گی اور وہ عالمی سامراج کے سرغنہ اپنے گرو گھنٹال انکل سام المعروف امریکی سامراج کی مدد سے بھی اپنے عبرتناک انجام سے بچ نہیں سکے گا۔

گنی بساؤ میں داخل ہونے والے PAIGC گوریلا جتھے اب ملک کے مختلف حصوں میں پھیل کر عوام کو آنے والے دنوں کے لیے تیار کر رہے تھے۔ چونکہ گوریلا جنگ کے بنیادی اصولوں کے مطابق عوامی حمایت ایک ناگزیر امر ہے سو یہی حمایت وہ حاصل کر رہے تھے جس کی بنیاد پر بعد ازاں دنیا کی عظیم ترین گوریلا جنگوں میں سے ایک لڑی گئی۔ یہ گوریلا جتھے صرف گنی بساؤ میں ہی مصروفِ عمل نہیں تھے بلکہ کیپ وردے میں بھی داخل ہوگئے تھے جہاں وہ خاموشی سے اپنے مراکز قائم کرنے اور عوامی حمایت حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ PAIGC کی جزائر کیپ وردے شاخ کی قیادت ارستے ویز پریرا کر رہے تھے جن کا شمار بے مثال افریقی گوریلا راہنماؤں میں ہوتا ہے جوآزادی کے بعد کیپ وردے کے صدر منتخب ہوئے۔
1962میں گوریلوں نے گنی بساؤ کے طول وعرض میں پرتگیزی فوجی چھاؤنیوں، پولیس اسٹیشنوں، فوجی تنصیبات، تجارتی مراکز پر چھوٹے موٹے حملوں کے ساتھ ساتھ پلوں، شاہراؤں، برقی و مواصلاتی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی بے شمار کارروائیاں کیں تو پرتگیزیوں کے ہوش ٹھکانے آئے۔ اب انھوں نے فوری انتقامی کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے PAIGCکے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ لیکن گوریلے ان کی دسترس میں ہوتے تو گرفتار ہوتے! وہ تو برق رفتار کاروائیاں کر کے آناََ فاناََ کسی چھلاوے کی مانند غائب ہو جاتے تھے۔ گوریلے تو ان کے ہتھے چڑھے نہیں البتہ انھوں نے کھسیانی بلی کمبا نوچے کے مترادف ہر ایسے شخص کو گرفتار کرنا اور تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جس پر انھیں ذرا بھی شک ہوتا کہ اس کا PAIGCسے کوئی تعلق ہے۔ اس عرصے میں پرتگیزیوں نے کوئی دو ہزار کے قریب افراد گرفتار کیے مگر یہ عمل بھی ان کے گلے ہی پڑا کہ جیسے جیسے وہ عوام کے خلاف جبر تشدد کے سامراجی ہتھکنڈے استعمال کرتے گئے ویسے ویسے عوام کی زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں PAIGCکو حاصل ہوتی چلی گئیں۔ جنوری 1963 میں کامریڈ ایملکار کیبرال نے پرتگیزی استعمار کے خلاف بڑے پیمانے پر اعلان جنگ کرکے ان کی نیندیں اڑا دیں۔23 جنوری کو PAIGCکے سرفروش گوریلوں نے Tite کے علاقے میں واقع پرتگیزی فوجی قلعے پر حملہ کرتے ہوئے سامراجی افواج کا صفایا کر دیا اور اس سارے علاقے پر قابض ہو گئے۔ اب جنگ کا طبل بج چکا تھا اور مادرِ وطن کے بہادر سپوت استعمار کے سامنے سینہ سپر تھے۔ اسی ماہ گوریلوں نے Fulacunda اور Buba کے علاقوں میں پیشقدمی کرتے ہوئے وہاں سے پرتگیزی افواج اور پولیس کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا جبکہ شمال کے اکثر علاقے بھی دشمن سے آزاد کرا لیے گئے۔ PAIGCگوریلے ان حملوں میں اس لیے بھی کامیاب ہوسکے کہ وہ انتہائی تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحے سے لیس تھے۔ اس اسلحے میں سوویت یونین کی طرف سے فراہم کی گئیں کلاشنکوفیں، کیوبا کی طرف سے BAZOOKA شیل جو اس زمانے میں گوریلا جنگ کے مؤثر ترین ہتھیاروں میں سے ایک تھا اور عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے دی گئیں AK47رائفلیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ PAIGC کے پاس مواصلات کا جدید ترین نظام بھی تھا۔ صدیوں سے گنی بساؤ کو اپنے پرکھوں کی جاگیر سمجھنے والے پرتگیزیوں نے تو اس صورتحال کا کبھی خواب میں بھی نہیں تھا سوچا، بہر حال یہ 15ویں صدی نہیں بلکہ 20ویں صدی کی چھٹی دہائی تھی۔ قومی آزادی کی تحریکوں کی شاندار جدوجہد اور سوشلزم کی سرفرازی کی دہائی۔ کامریڈ لینن اور کامریڈ اسٹالین کا وطن سوویت یونین جن کا حامی و مددگار تھا اورمشرقی یورپ سے لے کر ایشیاء اور لاطینی امریکا تک برادر سوشلسٹ ممالک ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ یہی وہ دہائی تھی جس میں سفید سامراج کے سرغنہ یانکی سامراج نے عالمی کمیونسٹ تحریک کے بہادر سپوتوں میں سے ایک کامریڈ چے گویرا کو اپنے تئیں بولیویا میں قتل کر دیا تھا، مگر انقلابی بھی بھلا مرا کرتے ہیں؟؟؟!!۔ وہ تو سامراج کی موت اورسرخ سویرے کے طلوع تک نت نئے چہروں اور ناموں سے بندوق بدست جنم لیتے رہتے ہیں کبھی افریقہ، کبھی لاطینی امریکا، کبھی ایشیا تو کبھی خود یورپ و امریکا میں۔

اگلا سال یعنی PAIGC 1964 گوریلوں کا سال تھا جس میں پرتگیزی استعمار کو پے درپے شکستوں کا سامنا تھا۔ کیبرال ایک ایسی گوریلا تنظیم بنانے میں کامیاب ہو چکے تھے جس نے ملک کا ایک چوتھائی حصہ پرتگیزیوں سے آزاد کرا لیا تھا اوریوں گوریلا جنگ کا ایک اہم مرحلہ مکمل ہو چکا تھا۔اب نہ صرف گوریلے مکمل طور پر جدید ترین اسلحے اور ٹیکنا لوجی سے لیس تھے اور ملک کے دیگر حصوں میں عوام بھی دل وجان سے ان کے ساتھ تھے۔آزاد کرائے گئے علاقوں میں کیبرال کے انقلابی اقدامات نے عوام کو ایک نئی اور بامعنی زندگی

گزارنے کا احساس عطا کیا۔ PAIGC کے آزاد علاقے کے ہر گاؤں میں نظم ونسق کے لیے ایک چھ رکنی کمیٹی (تین مرد تین عورتیں) گاؤں کی بالغ آبادی منتخب کرتی تھی۔ ان علاقوں میں اجتماعی کاشتکاری کا طریقہ رائج کیا گیا تھا اور بہت سی زمینیں قابلِ کاشت بنائی گئیں۔ زراعت کی طرف کیبرال نے خصوصی توجہ دی تاکہ خوراک کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔ چونکہ کیبرال خود ایک ماہرِ زراعت تھے اس لیے اس میدان میں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو خوب استعمال کیا۔ ان علاقوں میں پرتگیزی کرنسی کے استعمال پر پابندی تھی اور ابتدا میں باٹر سسٹم رائج کیا گیا تھا۔ دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے چھوٹی موٹی ورکشاپس قائم کی گئیں تھیں۔ یعنی کیبرال ان علاقوں کو عوامی کمیونوں میں ڈھال چکے تھے بعد میں جیسے جیسے ان علاقوں کا دائرہ پھیلتا گیا یہاں ایک انقلابی ریاست کے سارے ڈھانچے تعمیر ہوتے چلے گئے جن کا ہم آگے ذکر کریں گے۔

فروری 1964 میں گنی بساؤ کے آزاد علاقے Cassaca میں PAIGC کی کانگریس کا انعقاد کیا گیا جس میں پارٹی کو زیادہ سے زیادہ جمہوری بنانے اور گنی بساؤ اور کیپ وردے کے تمام اضلاع میں کمیٹیاں قائم کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیمی ڈھانچہ ازسرِ نو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ضلعی کمیٹیوں کو گوریلا سرگرمیوں کی نگرانی بھی سونپی گئی۔ PAIGC کی قیادت اپنی جدوجہد کو مافیہ کے اعتبار سے سیاسی سمجھتی تھی اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ مسلح گوریلا جتھوں کو ایک ایسی باقاعدہ انقلابی فوج میں تبدیل کیا جائے جو مکمل طور پر سیاسی قیادت کے ماتحت ہو۔کانگریس میں اس کی منظوری کے بعد پہلے مرحلے میں پارٹی کے دو ہزار رضا کارگوریلوں میں سے 900 افراد کا انتخاب اس فوج کے لیے کیا گیا۔ اب کیبرال کی مسلح فوج تیار تھی جو Revolutionary Armed Forces Of The people (FARF)کے نام سے معروف ہوئی۔ دیکھا جائے تو شروع میں اس انقلابی عوامی فوج کا حجم کم معلوم ہوتا ہے لیکن یہ عوامی فوج کے قیام کی جانب پہلا قدم تھا اور اس کے علاوہ بہت سے گوریلا دستے اپنا وجود رکھتے تھے جنھیں بتدریج اس عوامی فوج میں ضم ہونا تھا۔ کیبرال مسلح جدوجہد کے لیے ساری آبادی کو حرکت میں لانے کے عمل کو غیر ضروری سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ ابتدا میں آبادی کے کسی خاص حصے کو حرکت میں لانا کافی ہے جس کے بعد ایک باقاعدہ فوج منظم کرتے ہوئے باقی آبادی کو حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔

اب گنی بساؤ کے ساتھ ساتھ جزائر کیپ وردے میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ حملوں میں تیزی آرہی تھی۔ کیبرال کی عوامی انقلابی فوج اور پرتگیزی افواج کے درمیان پہلا بلا کا رن COMO جزیرے کے محاذ پر پڑا۔ اس معرکے میں عوامی انقلابی فوج نے پرتگیزی افواج کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پرتگیزی افواج نے بڑی مزاحمت کی مگر شکست ان کا مقدر بنی اور انقلابی اس جزیرے کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ شکست کے زخم چاٹتے ہوئے پرتگیزی فضائیہ اور بحریہ کی قوت کے ساتھ دوبارہ حملہ آور ہوئے مگر سامراجی ائیر فورس کوئی کرشمہ دکھانے میں ناکام رہی اور اس معرکے میں پرتگیزیوں کو بھاری تعداد میں جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہم مقامات پر گوریلوں نے پرتگیزی افواج کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ اب PAIGC کے سامنے فتوحات کا در واتھا یوں آزاد کرائے گئے علاقے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔

1965میں امیلکارکیبرال نے PAIGC کے 75 گوریلا راہنماؤں کا پہلا گروپ سوویت یونین میں جدید ترین گوریلا اور فوجی تربیت کے لیے بھیجا جہاں یوکرین کے Perevalne نامی علاقے میں واقع ملٹری اسکول میں سرخ فوج کے افسران نے انھیں جدید گوریلا وفوجی تربیت دیتے ہوئے ہر قسم کے جدید ہتھیاروں کے استعمال اور داؤ پیچ کا ماہر بنا دیا اور یہ سلسلہ آزادی تک جاری رہا۔

1966میں کیبرال نے کیوبا کے شہر ہوانا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس میں تیسری دنیا کے انقلابی اور سامراج مخالف راہنما شریک ہوئے تھے۔ اس موقع پر کیبرال نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”ہم یہ پلیٹ فارم محض سامراج کے خلاف آہ وزاری کرنے کے لیے نہیں استعمال کریں گے کیونکہ ایک افریقی کہاوت کے بموجب سامراج کو برا بھلا کہنے اور اس کے خلاف نفرت آمیز الفاظ استعمال کرنے سے وہ ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے لیے خواہ آپ کچھ بھی سمجھیں ہتھیار بدست لڑنا ہوگا۔ ہم یہی کچھ کر رہے ہیں اور جب تک افریقی وطن کی ساری زمین سامراجی قبضے سے آزاد نہ ہو جائے ہم یہی کرتے رہیں گے۔“ اس موقع پر کامریڈ فیڈل کاسترو پر افریقہ کے اس عظیم انقلابی سپوت نے گہرا تاثر چھوڑاکہ اس کے لفظ لفظ سے صداقت عیاں تھی۔ سو کیبرال ہوانا سے محض تقریریں جھاڑ کر اور سامراج کو بر بھلا کہہ کر نہیں لوٹے بلکہ کامریڈ فیدل کاسترو نے PAIGCکو جنگِ آزادی میں مدد فراہم کرنے کے لیے گنی بساؤ کے آزاد علاقے میں آرٹلری ماہرین، ڈاکٹرز اور تکنیکی ماہرین بھیجنے پر اتفاق کیا۔ گنی بساؤ میں کیوبا کے اس فوجی مشن کے سربراہ کیوبن انقلاب کے سپاہی کامریڈ وکٹر ڈریک تھے۔ کیوبا، لاطینی امریکا میں آزادی کا جزیرہ اور دور بہت دور گنی بساؤ، سچ ہے کہ کیبرال نے کیوبا کے بارے میں یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ ”کیوبا کے انقلابی ہماری جنگ لڑتے ہیں اور ہمارے شانہ بشانہ دشمن سے نبرد آزما ہوتے ہیں مگر واپسی پر وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کے سوا کچھ بھی نہیں لے کر جاتے۔“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔