امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 12 – مشتاق علی شان

184

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 12
مصنف: مشتاق علی شان

کیبرال کی نظریاتی اساس

امیلکار کیبرال کی نظریاتی اساس کے حوالے سے ماضی میں کچھ حلقے سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ کیبرال کمیونسٹ تھے یا قوم پرست؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیبرال اس زمانے کے بہت سے انقلابی رہنماؤں کے برعکس اشتراکیت اور مارکس ازم، لینن ازم کی اصطلاحات استعمال نہیں کرتے تھے۔ البتہ اپنی تحریروں و تقریروں کے جوہر اور عمل میں وہ سرتاپا اشتراکی تھے۔ کیبرال نے مارکس، اینگلز، لینن، اسٹالین اور دیگر مارکسی اساتذہ کی تحریروں کا گہرا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے معروض کے مطابق زبردست نتائج اخذ کیے تھے۔ انہوں نے کامریڈ لینن کے بے پناہ مطالعے سے حالات کے مطابق نت نئی حکمتِ عملیاں وضع کرنا سیکھی تھیں۔ اس لیے گنی بساؤ میں جہاں PAIGC پرولتاریہ، کسانوں، پیٹی بورژوازی اور ترقی پسند وطن پرست حلقوں کے اتحاد پر مبنی جماعت تھی کیبرال نے ہمیشہ ”انقلابی لفاظی“ سے گریز کیا۔ یقیناََ انہوں نے کامریڈ لینن کی تحریر ”انقلابی لفاظی“ کے یہ جملے پڑھ رکھے تھے جو گنی بساؤ کی صورتحال سے مکمل طور پر مطابقت رکھتے تھے۔ کامریڈ لینن کے بقول ”انقلابی لفاظی کی بھر مار اکثر ایسے حالات میں انقلابی پارٹیوں کے لیے بیماری بن جاتی ہے جب وہ پرولتاری اور پیٹی بورژوا عناصر کے براہِ راست یا بالواسطہ اتصال، اتحاد یا اختلاط پر مشتمل ہوتی ہیں اور جب انقلابی واقعات کی راہ میں بڑے اور تیز موڑ آتے ہیں۔ انقلابی لفاظی سے ہماری مراد واقعات کے مخصوص موڑ کے خارجی حالات کا لحاظ کیئے بغیر، خاص وقت پر معاملات کے مخصوص حالات کا لحاظ کیئے بغیر انقلابی نعروں کا دہرانا ہے۔ نام نہاد انقلابی نعرے شاندار، دلفریب اور پرجوش ہوتے ہیں لیکن ان کی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ یہ ہے انقلابی لفاظی کی فطرت۔“

کیبرال انقلابی حکمتِ عملیوں اور داؤ پیچ کے زبردست ماہر تھے، ان کی یہ خوبی انہیں اپنے عہد کے بہت سے انقلابی رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف PAIGCمیں آخر دم تک اتحاد قائم رکھا بلکہ ان کی بنائی ہوئی یہ واحد تنظیم تھی جس نے دو ملکوں یعنی گنی بساؤ اور کیپ وردے کی قومی آزادی کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ کیبرال کی حکمت عملیاں ہی تھیں جن کی بدولت وہ ایک طرف سوویت یونین، کیوبا اور دیگر اشتراکی ممالک کی مادی و اخلاقی امداد کے بل بوتے پر بیسویں صدی کی ایک اہم گوریلا جنگ کامیابی سے لڑسکے بلکہ وہ سوئیڈن جیسے سرمایہ دار ملک سے گنی بساؤ کے آزاد شدہ علاقوں میں ایک جامع تعاون کے پروگرام کا بھی آغاز کرسکے۔

کیبرال خود کہا کرتے تھے کہ ”خواہ کوئی مارکسٹ، لینن اسٹ ہے یا نہیں، لیکن اس کے باوجود یہ مشکل ہے کہ وہ اس کی علمی پختگی کو قبول نہ کرے اور لینن کے شاندار تجزیوں اور نتائج کو نہ دیکھ سکے۔ یہ تاریخی طور پر اہم ہیں کیوں کہ انہوں نے سامراجی تسلط سے مکمل آزادی کے لیے لڑنے والے عوام کی کانٹوں بھری راہ کو حیات بخش روشنی سے منور کیا ہے۔“
کیبرال کی نظریاتی اساس کے حوالے سے ان کے عم عصر سوویت دانشور راستیسلاف اولیانووسکی (جن کی کیبرال سے کئی ایک ملاقاتیں تھیں) لکھتے ہیں کہ ”کیبرال نے اپنے ملک کے سماج حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب سمجھا کہ سوشلزم کا لفظ استعمال نہ کیا جائے لیکن اس نے اس امر کو تسلیم کیا کہ گنی بساؤ کے انقلاب کے مقاصد وہی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں مزدور طبقے کی قیادت کرنے والی سیاسی تنظیم کے ہوتے ہیں۔ اس نے اپنے نظریات کی بنیاد ایشیا اور افریقہ کے زیادہ ترقی یافتہ لوگوں اور ان کی واضح سوشلسٹ زندگی کے اطوار پر رکھنے کی بجائے (جو سابقہ نوآبادیوں میں عام تھا) اپنے تاریخ کے سائنسی مطالعے پر رکھی۔ کیبرال کو تاریخی مادیت کے اس نظریے پر یقین تھا کہ نوعِ انسانی قدیم پنچایتی نظام، غلامانہ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ ادوار سے گزر کر سوشلزم اور پھر کمیونزم کے عہد میں داخل ہوگی۔ کیبرال کو اس بات پر کوئی بھی شک نہیں تھا کہ نہ صرف گنی بساؤ اور کیپ وردے کے عوام بلکہ پورے افریقہ کے عوام کے لیے سوشلزم اختیار کیے بنا ترقی، آزادی اور خوشحالی کا کوئی بھی امکان نہیں ہے۔ آخری تجزیے میں کیبرال کے نظریاتی اور عملی کام کا مقصد اپنے ملک کے سوشلزم کے لیے درکار معاشی، سیاسی، سماجی، مادی اور روحانی تقاضوں کی کمی کو نظر میں رکھتے ہوئے نوآبادیت دشمن اور سامراج دشمن جدوجہد کو سماجی انقلاب میں بدلنا تھا۔ نظریاتی حوالے سے یہ اس کا بہت بڑا کام تھا۔ وہ سابقہ نوآبادیوں کی ترقی کی الگ حیثیت کو سمجھتے تھے اور انہیں یہ علم تھا کہ سوشلسٹ آدرش میں اعتماد کو انقلاب کے عبوری مراحل کی ضرورت کے علم کے ساتھ کیسے جوڑا جائے اور ان کی اس طرح منصوبہ بندی کی جائے کہ یہ بجائے رکاوٹ بننے کے منزل کے حصول کا ذریعہ بن جائیں۔ کیبرال کو ان مسائل کی کلید اپنے تاریخی قوانین اور افریقہ بالخصوص گنی بساؤ اور کیپ وردے کے مخصوص حالات کی گہری جانکاری کی وجہ سے ہی مل سکی۔ اس نے ان دونوں ممالک کے سماجی ڈھانچے کا بالکل درست سائنسی تجزیہ کیا۔ وہ پرتگیزی نوآبادیت اور سامراج کے خلاف جدوجہد میں گنی بساؤ اور کیپ وردے کی تمام محب وطن قوتوں کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کی ضرورت پر پکا یقین رکھتے تھے۔ طبقات کے درمیان بہت زیادہ کمزور اور غیر واضح حد بندی ہونے کے باعث ان کے خیال میں قومی قوتوں کے اس اتحاد نے تمام سماجی پرتوں اور زیادہ تر دونوں ممالک کی ساری آبادی کو اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے۔ اسی لیے پارٹی کا یہ نعرہ ہوتا تھا کہ ”اتحاد اور جدوجہد“۔ اس کے ساتھ ساتھ کیبرال اس امر کو بھی ضروری سمجھتے تھے کہ تمام گروہوں کی معاشی حیثیت کا نہایت گہرا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ انقلاب کے مختلف مراحل میں ان کا کردار ایک جیسا نہیں رہے گا۔ ان کے سیاسی کردار کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ معاشی بنیاد، مادی پیداوار میں متعین حیثیت اور انقلابی عمل کا ارتقا جو دو مراحل یعنی آزادی کے لیے جدوجہد اور لوٹ کھسوٹ کے خاتمے سے گزرتا ہے، ایسے دو اہم عنصر ہیں جو مختلف سماجی پرتوں کی طرف کیبرال کے رویے کا تعین کرتے ہیں۔“

”اس کے تجزیے میں خاص دلچسپی کا نکتہ پسماندہ نوآبادیوں اور غریب و محتاج ممالک کے سماجی ڈھانچے کی خصوصیات اور انقلابی حکمت عملی کے متعلق پیش کردہ خیالات ہیں۔ اس نے آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں رائج متعدد ایسے نظریات کو رد کیا جو قومی خصوصیات کو خوامخواہ بڑھا چڑھا کر وہاں مقبول ہوئے تھے۔ اس نے بنیادی طور پر وہ راہ اختیار کی جو سائنسی سوشلزم کے بالکل موافق تھی۔“

الجزائر کے ممتاز انقلابی مفکر فرانز فینن کا خیال تھا کہ نوآبادیاتی دنیا میں کسان بنیادی انقلابی قوت ہے۔ فینن اس کے لیے نوآبادیاتی یا ”دیہی پرولتاریہ“ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے، فینن کا یہ نظریہ اس زمانے میں الجزائر سمیت افریقہ بھر میں مقبول ہورہا تھا مگر کیبرال اسے درست نہیں سمجھتے تھے۔ گنی بساؤ ایک زرعی ملک تھا جہاں کسانوں کی تعداد الجزائر کے مقابلے میں کئی زیادہ تھی لیکن کیبرال محنت کش طبقے کو ہی انقلاب کا فیصلہ کن عنصرسمجھتے تھے۔ وہ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ کسان نوآبادیاتی نظام کے خلاف مسلح جدوجہد کا ایک اہم جز ہیں اور انہیں جدوجہد میں شامل کیئے بغیر نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ البتہ کیبرال اس امر پر بخوبی وارد تھے کہ کسانوں کی پسماندگی قومی اور سماجی سیاسی شعور کے پھیلاؤ میں رکاوٹ بنتی ہے اور بسا اوقات انہیں عمل کے لیے تیار کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسانوں کو انقلابی بنانے کے لیے ایسے شہری افراد کی ضرورت کے قائل تھے جو انقلابی افکار سے لیس ہوں۔ کیبرال کے پیش نظر پرولتاریہ کا تاریخی مشن تھا وہ جانتے تھے کہ یہی وہ طبقہ ہے جو بنیادی انقلابی عنصر۔ اس سلسلے میں کیبرال لکھتے ہیں کہ ”مزدور طبقہ خواہ اس کی سطح جتنی بھی ہو (جو کم ازکم اپنی ضروریات سے واقفیت کی ہوسکتی ہے) جدید نوآبادیاتی دور میں قومی آزادی کی جدوجہد کے حقیقی عوامی رہنما دستے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کیبرال استحصال کا شکار دیگر پرتوں یعنی کسانوں اور وطن پرست پیٹی بورژوازی کے ساتھ مزدور طبقے کے اتحاد کو مضبوط کرنے پر بھی زور دیتے تھے۔

ٓامیلکار کیبرال ایک سچے مارکسسٹ، لینن اسٹ تھے جنہوں نے بے پناہ قوت تخلیق سے اپنے سماج پر نہ صرف انقلابی افکار کا اطلاق کیا بلکہ وقت اور حالات کے مطابق نئے نظریات بھی تراشے۔ جہاں تک خود کو مارکسسٹ، لینن اسٹ کہلوانے کا تعلق ہے تو راستیسلاف اولیانووسکی کے الفاظ میں ”کیبرال نے کبھی خود کو سائنسی سوشلزم یا مارکس ازم، لینن ازم کا حامی نہیں کہا لیکن اشتراکی آدرشوں سے پیار اور وفادری کے لیے ہمیشہ اعلانات کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس نے اپنے نظریاتی اور علمی کام کے لیے سائنسی سوشلزم کے اصولوں سے ہی رہنمائی حاصل کی۔ اپنے عوام کے لیے اس کا کیا ہوا کام بنا کسی شک شبہے کے مارکس ازم ولینن ازم کے عین مطابق ہے۔ امیلکار کیبرال کی زندگی اور اس کا کیا ہوا کام قومی آزادی کی تحریک پر سوشلزم کے مفید اثرات کا بہترین نمونہ ہے۔“

راستیسلاف اولیانووسکی مزید لکھتے ہیں کہ ”قومی اور سماجی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوجانے والوں میں امیلکار کیبرال کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر جانا جائے گا جس کے پاس ایک فیصلہ کن دماغ اور جذبے سے بھرا ہوا انقلابی دل تھا اور جو انصاف اور سوشلزم کے لیے لڑنے کو اپنا ایمان سمجھتا تھا۔“

کیبرال ایک حقیقی کمیونسٹ تھے اور ان کا کیا ہوا عملی وعلمی کام عالمی کمیونسٹ تحریک کا شاندار ورثہ ہے۔ انہوں نے انقلابی نعرے بازی کی بجائے انقلابی عمل کو مقدم جانا اور اپنے عمل سے خود کو مارکس، اینگلز، لینن، اسٹالین کی انقلابی فکر کا وارث ثابت کیا اور یہی ان کی بڑائی ہے ورنہ اس زمانے میں انقلابی لفاظی کرنے والے ابن الوقتوں کی بھی کوئی کمی نہ تھی جن کا عمل نہ صرف اپنے سماج بلکہ عالمی کمیونسٹ تحریک میں بھی نفاق کا باعث بنا۔ اس سلسلے میں ہم کیبرال کے عہد کے افریقہ سے ہی ایک مثال پیش کریں گے۔

صومالیہ شمالی افریقہ کا ایک ملک ہے جو برطانوی سامراج کے زیر نگیں تھا۔ یہ ملک 1960 میں آزاد ہوا۔ اکتوبر 1969 میں صومالیہ کے صدر عبدالرشید علی شیر مارکے خانہ جنگی میں مارے گئے اور فوج کے بائیں بازو کے افسروں نے زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ جنرل سیاد برّےSupreme Revolutionary Councilکے صدر منتخب ہوئے۔ ملک کو سوشلسٹ جمہوریہ قرار دیا گیا اور بعد ازاں ”صومالی سوشلسٹ انقلابی پارٹی“ کی تشکیل کی گئی۔ جنرل سیاد برّے سربراہ مملکت (صدر) پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور پانچ رکنی پولٹ بیورو کے چیئرمین مقرر ہوئے۔

جنرل برّے افریقہ میں انقلابی لفاظی کی بہت بڑی مثال ہے۔ اس نے آتے ہی صومالیہ کو سوشلسٹ نظام میں ڈھالنے کا آغاز کیا۔تعلیم اور صحت سمیت متعدد اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا اور سوویت یونین کے ساتھ دوستی اور امن کا معاہدہ کیا گیا۔جنرل برّے نے ایسی شدت سے مارکس ازم، لینن ازم اور سائنٹفک سوشلزم کے نعرے جگالنے شروع کر دیے کہ سوشلسٹ ممالک بھی پریشان ہوگئے مگر آنے والے وقتوں نے جنرل برّے کو محض ایک ٹٹ پونجیہ قوم پرست ہی ثابت کیا۔ موصوف نے پہلے سوشلزم کو مذہب کا تڑکا لگانے کی کوشش کی پھر اسے ”عظیم تر صومالیہ“ کا خبط سوار ہوا۔ اسی جنون میں اس نے اگست 1977 میں پڑوسی سوشلسٹ ملک کے سرحدی علاقے ”اوگاون“ (جہاں کی غالب اکثریت صومالی النسل تھی) پر فوجی چڑھائی کرکے سارے سوشلسٹ بلاک کو حیران کردیا۔ سوشلسٹ ایتھوپیا کی فوجی طاقت صومالیہ سے کئی زیادہ تھی مگر اس موقع پر ایتھوپیا کے ممتاز کمیونسٹ رہنما کامریڈ منجستو ہیل مریام نے دو سوشلسٹ ممال کے درمیان خون خرابے سے بچنے کے لیے کسی قسم کی جوابی کارروائی نہیں کی بلکہ سوویت یونین سے مصالحت کی اپیل کی مگر جنرل سیاد برّے نے سوویت یونین کی مصالحت کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے امریکی سامراج، نیٹو اور عرب ممالک سے امداد طلب کی۔ سوویت یونین سے دوستی اور امن کا معاہدہ منسوخ کردیا گیا، کیوبا سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور صومالیہ سے سوویت یونین اور کیوبا کے تمام فوجی و غیر فوجی مشیر و تکنیکی معاونت کاروں کو نکال دیا۔ تب ایتھوپیا کی سرخ فوج حرکت میں آئی اور فروری 1978 میں کیوبا کے فوج مشیروں کی مدد سے جوابی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ یوں مارچ 1978 میں اوگاون سے صومالیہ کی فوج کو باہر دھکیل دیا گیا لیکن امریکی سامراج کی شہ پر یہ لڑائی 80 کے عشرے تک جاری رہی۔

بعد ازاں امریکا اور صومالیہ کے مابین معاہدہ طے پایا جس کے تحت امریکا کو موغا دیشو اور بربرا کی بندر گاہوں کے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے عوض امریکا نے صومالیہ کو 45 ملین ڈالر کی خطیر رقم مہیا کی۔ اس طرح صومالیہ مکمل طور پر ایک سامراجی اڈے میں تبدیل ہو گیا۔ سیاد برّے 1991 تک صومالیہ پر مسلط رہا۔ 1988 میں اس کے خلاف ملک کے شمال مشرقی حصوں میں گوریلا سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ جنوری 1991 میں سیاد برّے ملکی خزانہ لوٹ کر اپنے حواریوں سمیت نائجیریا فرار ہوگیا۔ اس کے بعد صومالیہ کا جو حشر ہوا اور ہورہا ہے اس سے دنیا بخوبی واقف ہے۔ آج کا صومالیہ بھوک، غربت، افلاس اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ خانہ جنگیوں کی تباہیوں، مسلح نسلی اور مذہبی جنونی گروہوں، بحری قزاقوں کے ہاتھوں نشانِ عبرت بنا ہوا ہے۔ یعنی انقلابی نعرے جگالنے والے ایک ٹٹ پونجیے قوم پرست کے ہاتھوں صومالیہ تباہی و بربادی سے دوچار ہوا جس میں امریکی سامراج کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا جنرل سیاد برّے کا۔ کامریڈ لینن نے کس قدر درست کہا تھا کہ ”انقلابوں کی ساری تاریخ میں ایسے کئی انقلابی باتونی نظر آئے جنہوں نے بدبو اور دھوئیں کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں چھوڑی۔“

بہر کیف ہم کیبرال کی طرف آتے ہیں کہ ان کی نظریاتی اساس مارکس ازم، لینن ازم تھی۔ عالمی کمیونسٹ تحریک کی تاریخ میں ان کا نام اور کیا ہوا کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج جب سوویت یونین اور سوشلسٹ بلاک کے انہدام کو ربع صدی کا عرصہ بیت چکا ہے اور دنیا بھر میں مارکس ازم، لینن ازم ایک نئی انگڑائی لیتے ہوئے بیدار ہورہا ہے، ایسے میں نئے عہد کے انقلابی کامریڈ امیلکار کیبرال کے فکروعمل سے بہت کچھ سیکھتے ہوئے نت نئے طریقوں سے اشتراکیت کی منزل کی طرف پیش رفت کر سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔