امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 11 – مشتاق علی شان

225

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 11
مصنف: مشتاق علی شان

انقلاب پر کیا گزری ؟ – آخری حصہ 

جہاں تک انقلابی تحریکوں میں وی آئیرا جیسے افراد کا ظہور ہے تو PAIGC ہی پر کیا موقوف کہ دنیا بھر کی انقلابی جماعتوں میں ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر کامریڈ لینن کی بالشویک پارٹی میں زینوئیف، کامنیف اور بخارین جیسے غداروں کا اہم ترین عہدوں پر رہنا جنھوں نے اپنے تئیں انقلاب روس کو اپنے محور سے ہٹانے کی ہر ممکنہ کوشش کر ڈالی مگر کامیاب نہ ہو سکے اور بے نقاب ہوئے۔ اسی طرح ہم لیون ٹراٹسکی کی مثال پیش کر سکتے ہیں جو پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز رہا مگر عملی طور پر انقلاب کو برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا یہاں تک کہ پارٹی قیادت کو قتل کرنے کی سازش بھی کرڈالی یہ اور بات کہ کامریڈ اسٹالین کے سامنے اس کی ایک نہ چل سکی اور نہ صرف پارٹی بلکہ ملک سے نکال دیا گیا۔ موصوف نے باقی ماندہ عمر فاشسٹوں اور سامراج کے ایجنٹ کے طور پر بسر کی اور انہی کی خدمت کرتا رہا۔ کامریڈ اسٹالین کے دور میں خروشیف جیسا ترمیم پسند اور غدار پارٹی کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہا اور اپنے عزائم بھی چھپائے رکھے۔ اسٹالین کی وفات کے بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی بن گیا مگر کچھ عرصے بعد کامریڈ لیوند بریژنیف نے اسے اتار پھینکا۔ اب یہ اور بات کہ کامریڈ بریژنیف کے عہد میں گورپاچوف جیسا کولک خاندان سے تعلق رکھنے والا ردِ انقلابی خاموشی سے اپنی جگہ بناتا رہا اور بعد ازاں یہ کہتے ہوئے کہ میں نے اپنی زندگی کا مقصد پورا کر لیا ہے، انقلاب کا بیڑا غرق کر دیا۔ چین میں ماوزے تنگ کی کمونسٹ پارٹی میں لین پیاؤ جیسا غدارموجود تھا جسے ماؤ نے اپنا آئینی سیاسی جانشین بھی قرار دیا تھا مگر وائے افسوس کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور جان سے گیا۔ یا پھر ڈینگ ژیاؤ پنگ جس نے ماؤ کے باقی ماندہ سوشلزم کا بھی ستیاناس کر ڈالا۔ چیک سلواکیہ اور ہنگری کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کچھ ایسے ہی غدار البانیہ میں کامریڈ انور ہوجا کو بھی درپیش تھے جو بہرحال بے نقاب ہوئے۔

ہم اگر اپنے خطے میں دیکھیں تو افغانستان کا ثور انقلاب ایک بہت بڑی مثال ہے جو ایک غریب مزدور زادے کامریڈ نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں خلق پارٹی نے برپا کیا اور پیٹی بورژوا حفیظ اللہ امین نے اس انقلاب میں اہم کردار ادا کیا یہاں تک کہ ”شاگردِ انقلاب“ کہلایا۔ مارکس ازم، لینن ازم پر کتابیں تحریر کیں مگر جب امریکی سامراج نے اقتدار کا دانہ ڈالا تو انقلاب کا لبادہ اوڑھے اس ٹٹ پونجیے قوم پرست نے استاد ترہ کئی کو شہید کرنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ یہ اور بات کہ ”پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔“

پھر اسی افغانستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ پیٹی بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نجیب اللہ نے سوویت یونین سے لے کر مشرقی یورپ اور افریقہ تک ایک دنیا اجڑتے دیکھی مگر سوشلزم اور انقلاب سے کوئی غداری نہیں کی یہاں تک کہ دار پر سرافراز ہوئے۔ مشرقی یورپ میں جب اسی پیٹی بورژوا طبقے کے ”مہا انقلابی“ راتوں رات سرمایہ دار بن رہے تھے اور اقتدار سے چمٹتے ہوئے نظریات کو پامال کر رہے تھے تو وہاں بلغاریہ کے تودورو ژیکوف جیسے کمیونسٹ بھی تھے جنھوں نے نظریات پر کوئی سودے بازی نہیں کی اور جیل میں مرنا قبول کیا (الزام تو ان پر بھی کوئی نہیں ثابت کیا جا سکا) رومانیہ کے انقلابی جوڑے نکولائی چاؤ شسکو اور الینا چاؤ شیسکو کا تو ذکر ہی کیا کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے لہو میں نہا کر نظریات سے وفاداری نبھائی۔ اسی طرح جب افریقہ میں سوویت یونین کے انہدام کے وقت سامراج کے خلاف عظیم گوریلا جدوجہد کرنے والے راہنما پارٹیاں توڑ رہے تھے اور اپنے آئینوں سے مارکسزم، لینن ازم جیسی اصلاحات نکالتے ہوئے سرمایہ داری اور سوشل ڈیمو کریسی کے حلقہ بگوش ہو رہے تھے تو وہاں ہمیں ایتھوپیا کے عظیم کمیونسٹ انقلابی کامریڈ منجستو ہیل مریام بھی نظر آتے ہیں جو آخر تک انقلاب کو بچانے کی جدوجہد کرتے رہے۔

یعنی انقلابی تحریکوں اور جماعتوں میں یہ ایک مسئلہ رہا ہے جس میں قصور ان جماعتوں یا قیادتوں کا نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ پیٹی بورژوازی کا کردار مثبت بھی ہوتا ہے اور منفی بھی جسے اس طبقے کی مخصوص نفسیات یا رحجانات کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ امریکی سامراج نے اس طبقے کے انہی رحجانات کو کئی ایک جگہوں پر کامیابی سے استعمال کیا جبکہ بہت سی جگہوں پر اسے ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔ یہاں ہم کیوبا، عوامی جمہوریہ کوریا اور ویتنام وغیرہ کی مثالیں دے سکتے ہیں۔

سو گنی بساؤ میں وی آئیرا کا کردار اور ردِ انقلاب بھی ایسی ہی ایک مثال ہے جہاں سامراج انقلاب کو اس کے محور سے ہٹانے میں کامیاب رہا۔

رہ گیا یہ سوال کہ ردِ انقلاب کے موقع پر ان جماعتوں یا عوام کی جانب سے مزاحمت نہیں کی گئی تو ہم سوویت یونین ہی کی مثال دیں گے کہ جب وہاں گوربا چوف کا ردِ انقلاب شروع ہوا تو کمیونسٹ پارٹی کے راہنما کامریڈ گینادی زوگانوف نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جسے سازشی ٹولے نے ناکام بنا دیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں ردِ انقلابی عناصر بے پناہ جبر اور تشدد سے کام لیتے ہیں جبکہ سرمایہ دار میڈیا بھی ایسی خبروں کو دبا دیتا ہے۔ عوام کی جانب سے انقلابی حاصلات کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ بات درست ہے کہ گنی بساؤ میں جب وی آئیرا نے اقتدار پر قبضہ کیا تو عوام کی جانب سے کوئی خاص مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس سے قبل1966 میں جب گھانا میں کوامے نکرومہ کا تختہ الٹا گیا تھا تو وہاں بھی یہی صورتحال درپیش تھی جبکہ جمہوریہ گنی میں جب احمد سیکو طورے کی وفات کے فوری بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تو وہاں بھی کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ پھر سوویت یونین اورمشرقی یورپ تک میں یہی کچھ دیکھا گیا۔

دراصل سوشلسٹ انقلابات کو جادو کی چھڑی تو ہوتے نہیں کہ اس کے گھماتے ہی سب کچھ بشمول انسان تبدیل ہوجائے۔ سوشلسٹ انقلاب ایک نئے سماج کی تعمیر کا نام ہے لیکن ایک نئے سوشلسٹ انسان کی تخلیق بھی اس کا فریضہ ہوتا ہے اور یہی سب سے مشکل اور طویل مرحلہ ہوتا ہے۔ بشمول سوویت یونین تمام سوشلسٹ انقلابات میں ایک نئے سماج اور نئے انسان کی تخلیق کا کام ضرور شروع ہوا۔ اول الذکر میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی مگر مؤخر الذکر کے لیے نصف یا پونے صدی کا عرصہ تو ایک لمحے کے برابر بھی نہیں ہے کہ ہزارہا سال کی طبقاتی دنیا کے انسان کو ایک نئے سوشلسٹ انسان کے قالب میں ڈھالا جاسکے۔ آج اگر ہم کیوبا اور کوریا میں دیکھیں تو وہ اس مرحلے میں نظر آتے ہیں جہاں نہ صرف عوام اپنی سوشلسٹ حاصلات کا شعور رکھتے ہیں بلکہ اس کے دفاع کے لیے چوکس اور بیدار بھی نظر آتے ہیں۔ یعنی ان ممالک میں ایک نئے سماج کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ایک نیا سوشلسٹ انسان بھی تخلیق ہو رہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کیفیت نہیں بلکہ کمیت ہے۔خود اگر انقلاب کو دیکھا جائے تو ایک کیفیت کے بعد یہاں بھی جدلی اصولوں کے مطابق کمیتی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ سو اسی تناظر میں گنی بساؤ کے ردِ انقلاب کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔

اب ہم دوبارہ گنی بساؤ کی طرف آتے ہیں کہ انقلاب پر کیا گزری:

غدار وی آئیرا اپنے مغربی سرپرستوں کی آشیر باد سے طویل عرصے تک اقتدار سے چمٹا رہا۔اس زمانے میں وی آئیرا گنی بساؤ کو”خدا کا تحفہ“ کہا کرتا تھا۔ یقیناََ گنی بساؤ سے وی آئیرا کی مراد اس کا اقتدار تھا جو سامراج کا تحفہ تھا۔ 1984 تک گنی بساؤ کی سوشلسٹ حاصلات کا کباڑہ کرنے کے بعد وی آئیرا نے ”سویلین حکمرانی“ کا ڈول ڈالا اور 9 رکنی نام نہاد ”فوجی انقلابی کونسل“ کا تکلف بھی ختم کردیا۔ اب آئین میں ترمیم کرتے ہوئے وی آئیرا ”چیئرمین“ کی بجائے ”صدر“ بن بیٹھا۔

1990 میں وی آئیرا نے ملک میں ”کثیر الجماعتی نظام“ اور ”جمہوریت“ کے نعرے جگالنا شروع کر دیے۔ یوں 1991 میں دیگر سیاسی جماعتوں پر سے پابندی ختم کر دی مگر انتخابات کا ڈھونگ کہیں 3 جولائی 1994 کو ہی جاکر رچایا جاسکا جس میں ظاہر ہے کہ وی آئیرا ہی کو منتخب ہونا تھا۔

1998میں وی آئیرا اور فوج کے درمیان ان بن ہوگئی جو کہ اس طرح کی ”جمہوریتوں“ میں اقتدار میں حصے، لوٹ کھسوٹ اور زیادہ سے زیادہ مال ہڑپ کرنے کے سلسلے میں عام سی بات ہے۔ وی آئیرا اور فوج کے درمیان یہ چپقلش فوج کے سربراہ کی معطلی کی صورت میں نکلی۔ وی آئیرا کے اس اقدام نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جس کے نتیجے میں ایک ایسی خانہ جنگی نے جنم لیا جو لاکھوں افراد کے گھر بار چھوڑنے اور بڑے پیمانے پر کشت و خون پر منتج ہوئی۔ 7 مئی 1999 کو فوج کے باغی حصے نے وی آئیرا کو اقتدار سے اتار پھینکا۔ وی آئیرا نے نے پرتگال کے سفارت خانے میں پناہ لے کر اپنی جان بچائی جہاں سے وہ پرتگال فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

فروری 2000میں عبوری حکومت نے اقتدار اپوزیشن راہنما کمبا لالا کے حوالے کر دیا جو جنوری میں ہونے والے انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔ گنی بساؤ سیاسی اور فوجی طالع آزماؤں کے درمیان ایک ایسا سینڈوچ بنا ہوا تھا جسے ہر دو زیادہ سے زیادہ نوچنے میں مصروف تھے۔ چنانچہ اسی سال نومبر میں جنرل مانے نے کمبا لالا کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جس میں جنرل موصوف ہلاک ہوگئے۔ 2001میں اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل کوفی عنان گنی بساؤ میں اندرونی کشیدگی کو کرنے کرنے کے لیے سیاسی مذاکرات کی دھائی دیتا تو IMF ترقیاتی فنڈز کے لیے دی گئی رقم میں بڑے پیمانے پر خرد برد کا رونا روتا نظر آیا۔ 9ستمبر2003 کو جنرل ویری سیمو کوریا نے یہ اعلان کرتے ہوئے کی کمبالالا ملک کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یوں جنرل موصوف نے عبوری صدر کے اختیارات سنبھال لیے۔ اپریل2004 میں قانون ساز مجلس کے انتخابات بھی ہوئے مگر اکتوبر کے مہینے میں فوج کے کچھ حصوں نے بغاوت کر دی جس میں جنرل ویری سیمو کوریا کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

2005میں گنی بساؤ کے ان حاکموں کو ایک بار پھر ”جمہوریت“ کی یاد ستانے لگی۔ بھلا وی آئیرا کیوں پیچھے رہتا وہ فوراََ ہی ”جمہوریت“ اور گنی بساؤ کے عوام کے لیے اپنی ”خدمات“ کے نعرے لگاتا ہوا پرتگال سے گنی بساؤ پہنچا کہ خود ساختہ جلاوطنی میں بھی اسے گنی بساؤ اور عوام کی ”فکر“ کھائے جا رہی تھی۔ جون2005 میں ہونے والے انتخابات میں وی آئیرا پھر ”منتخب“ ہوگیا اور اگلے چار سال گنی بساؤ کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ اس عرصے میں وی آئیرا اور فوج کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی بھی جاری رہی اور گنی بساؤ کے چیف اسٹاف جنرل تاجمے کے ساتھ ان کی تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ نومبر 2008 میں فوج نے وی آئیرا کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی کہ اب یہ معمول کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اب وی آئیرا نے جنرل تاجمے سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یکم مارچ 2009 کو جنرل تاجمے فوجی ہیڈ کوارٹر میں بم دھماکے میں قتل کیا گیا تو فوج کے ترجمان نے وی آئیرا کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا اور دوسرے ہی دن جنرل تاجمے کے حامی فوجیوں نے صدارتی محل پر دھاوا بول دیا۔ گنی بساؤ کے انقلاب کے سب سے بڑے غدار اور وہاں کے عوام کی تباہی کے سب سے بڑے ذمہ دار وی آئیرا نے فرار کی کوشش کی مگر فوجیوں کی گولیوں نے اسے چھلنی کردیا۔ اس کے بعد فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں کئی ایک سیاست دان اسی انجام سے دوچار ہوئے تاکہ جرنیلوں کے اقتدار کے لیے کوئی خطرہ نہ رہے۔امریکا سمیت مغرب بھر نے اپنے اس پرانے ”نمک خوار“ کی موت پر خوب آنسو بہائے اور اسے ”جمہوریت کا قتل“ تک قرار دیا مگر جو فصل وی آئیرا نے تقریباََ 30 سال قبل بوئی تھی وہ اسے کاٹنی بھی خود ہی پڑی۔

وی آئیرا کی ہلاکت کے تقریباََ تین ماہ بعد 30 مئی 2009 کو پرتگال میں کامریڈ لوئس کیبرال کا بھی 78 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ اس موقع پر گنی بساؤ کی قومی اسمبلی نے ان کی وفات کو گنی بساؤ کی حکومت اور عوام کے لیے ایک عظیم دکھ اور صدمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”گنی بساؤ کا ایک قابل اور عظیم سپوت ہم نے کھو دیا ہے“۔ گنی بساؤ میں تین دن تک سرکاری طور پر کامریڈ لوئس کیبرال کا سوگ منایا گیا لیکن اس پر ماسوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔

گنی بساؤ اب ایک ایسا اکھاڑے میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں فوجی جرنیلوں اور سیاستدانوں کے درمیان زور آزمائی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں بھلا کون گنی بساؤ کے عوام کا پرسان ہوسو ان کی زندگیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہیں۔آج گنی بساؤ میں فی کس یومیہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے اور یہاں کے عوام غربت، بھوک، بیماری سمیت کتنے ہی عذابوں میں مبتلا ہیں۔ سامراجی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں گنی بساؤ کا انقلاب برباد ہوا اور یہاں کے عوام کا مقدر چکی کے دو پاٹھوں یعنی نام نہاد بورژوا سیاستدانوں اور فوجی آمروں کے درمیان پس جانا بنا دیا گیا ۔لیکن گنی بساؤ سمیت تمام افریقی انقلابات کا یہی کچھ مقدر نہیں ہے۔ تاریخ کے ناگزیر امر کے طور پرجلد یا بدیر افریقہ میں آزادی اور انقلاب کی نئی لہر اٹھے گی جو امریکی شہنشاہیت اور اس کے گماشتوں کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جائے گی۔ یہ انقلابات کوئی ”نیلے، پیلے یا گلابی قسم کے انقلابات“ نہیں ہونگے نہ ہی ان انقلابات کو نام نہاد ”بہاروں“ سے کوئی علاقہ ہوگا بلکہ یہ سرخ انقلابات ہونگے اسی قسم کے سرخ انقلابات جن کے خواب آنکھوں میں بسائے ہوئے افریقہ کے بے شمار ہونہار سپوت دار و رسن کی آزمائشوں سے گزرے۔ سو افریقہ میں پھر امیلکار کیبرال، پیٹرس لوممبا، ایڈورڈو مونڈلین، سیموررا میشل، کوامے نکرومہ، ڈکٹر نیتو اور ایسے ہی مبارز جنم لیں گے کیونکہ جب تک سامراج باقی ہے، سرمایہ داری اور اس کے دلال باقی ہیں محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کی جدوجہد جاری رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔