افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے عالمی نشریاتی ادارے کے پشتو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا ہم امریکا کے ساتھ تیار کیے گئے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں۔اس دستاویز کو حتمی شکل دینے کے بعد ہی امریکا کے ساتھ فائر بندی پر عمل درآمد شروع ہو سکتا ہے۔
ستمبر کے اوائل میں طالبان اور امریکا کے مابین امن معاہدہ اپنے آخری مراحل میں تھا کہ کابل میں ایک خونریز حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ بات چیت فوری طور پر روک دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس حملے میں ایک امریکی فوجی ہلاک ہو گیا تھا۔
امریکا اور طالبان جولائی 2018ء سے اس اٹھارہ سالہ افغان تنازعے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ فریقین نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ مذاکرات مثبت انداز سے جاری ہیں اور کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکانات بہت روشن ہیں۔ بات چیت ختم ہونے کے چند دن بعد ٹرمپ نے کہا،مذاکراتی عمل دم توڑ چکا ہے۔
دوسری جانب طالبان دیگر ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی و سفارتی روابط بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹویٹر پر لکھا کہ طالبان کے ایک چار رکنی وفد نے پیر کے دن ایران میں بات چیت کی ہے۔طالبان ذرائع کے مطابق اس وفد نے دیگر سیاستدانوں کے علاوہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی ہے۔ اس دوران کئی موضوعات پر بات چیت ہوئی، جس میں امن عمل اور افغانستان میں جاری ایرانی منصوبوں کے تحفظ جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے طالبان کا ایک وفد مذاکرات کے لیے ماسکو بھی گیا تھا۔