یہ پابندیاں نائن الیون کی 18 ویں برسی کے موقع پر لگائی گئی ہیں۔
امریکا کے محکمہ خزانہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان پابندیوں کا ہدف حماس، القاعدہ، داعش اور ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب سے منسلک 15 افراد اور عناصر شامل ہیں۔
یہ پابندیاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ ایکزیکٹو آرڈر کے تحت لگائی گئی ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کو بھی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان بھر میں متعدد ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبان کا سربراہ امریکہ اور افغانستان کی فورسز کے خلاف لڑنے پر یقین رکھتا
وزیر خزانہ سٹیو منوچن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد سے امریکی حکومت نے اپنی انسداد دہشت گردی سے متعلق کوششوں کو مستقلاً ابھرتے ہوئے خطرات پر مرکوز کر دیا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے انسداد دہشت گردی کے ایکزیکٹو آرڈر میں ہمارے اختیارات کو تقویت فراہم کی جس سے ہم دہشت گرد گروپس کے مالیات اور ان کے لیڈروں کو ہدف بنا سکتے ہیں۔
جن افراد پر پابندیاں لگی ہیں ان میں ترکی میں مقیم حماس کے مالی امور کے سربراہ ظاہر جبرین اور قدس فورس کے چیف سعید آزادی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ برازیل میں مقیم القاعدہ کا رکن اور ملاوی کا باشندہ بھی شامل ہے جو داعش کی افغانستان میں شاخ کے لیے بھرتیاں کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلپائن میں مقیم داعش سے منسلک ایک کارندہ بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہے۔
افراد کے ساتھ ساتھ کئی ایکس چینج ہاؤسز اور جنوبی ترکی میں ایک جیولری کمپنی کو بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
پابندیوں کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم نامے کی زد میں آنے والوں کی امریکا میں موجود جائیدادیں ضبط کی جا سکتی ہیں اور امریکیوں کو عمومی طور پر ان کے ساتھ کاروبار کرنے کی ممانعت ہو گی۔