امبل کے نام خط
تحریر : شاہ داد شاد
دی بلوچستان پوسٹ
18 ستمبر 2019
جامعہ بلوچستان شال
لمبے عرصے کے بعد اس خط کے توسط سے تم سے مخاطب ہوں، امید ہے آپ خیریت سے ہونگی اور خوشحال زندگی گذار رہی ہونگی، میری دعا بھی یہی ہے کہ صدا خوش اور مسکراتے ہو۔
میں اپنی طبیعت کے بارے میں کہنا نہیں چاہونگا کیوں کہ تم میرے حالات سے بخوبی واقف ہو۔ تمہیں یاد ہوگا کہ 24 نومبر 2018 کو جب آپ نے مجھے زندگی کا سب سے دردناک اور کٹھن خبر دی تھی جس پر یقین رکھنا میرے لیئے موت کے مترادف ہے۔ آپکی اس خبر پر میں نے آپ کو جواب بھی لکھا تھا امید ہے آپ تک پہنچ چکا ہوگا۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس پیغام کو لکھنے کے بعد میں سوچنے اور لکھنے کی صلاحیت شاید کھو دوں۔ وہ بات ایک حد تک سچ بھی ثابت ہوگئی کہ اس کے بعد میں شعوری زندگی سے رخصت ہوگیا۔
غم کی شامیں تو ہمیشہ میرے ساتھ ہوتی ہیں چلو آج میں آپکو کچھ نیا سناتا ہوں۔ اس بات کی گواہی نہیں دے سکتا کہ “نئے” کے ساتھ ‘پرانے” نہیں ہونگے۔ اُس دن کے بعد سے میں نے اپنا ایک دوست بنایا جو ہروقت میرے ساتھ ہوتا ہے، بھیڑ میں، تنہائی میں، محفل میں، درد میں، خوشی میں ، شعوری و لاشعوری لمحات میں میرے ساتھ ہوتا ہے۔ مسلسل اس سے میری بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ زندگی، موت, خواب, حقیقت، تنہائی اور طرح طرح کے موضوعات پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ لیکن میں جب بھی تمہارے بارے میں بات کرنے لگ جاتا ہوں تو اس کی طرف سے خاموشی چھا جاتی ہے۔ میں نے ہزار بار خاموشی کی وجہ پوچھی ہے لیکن اس کا جواب ہزار دفعہ “خاموشی” ہوتا آیا۔
جب میں اس سے پوچھتا ہوں کہ تم “امبل” کے بارے میں کہنے سے گریز کیوں کرتے ہیں؟ اس سے تمہاری قربت تو نہیں رہی ہے؟ یہ سُننے کے فوراً بعد وہ میرے منہ پہ ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ “بس شاد! مزید کچھ نہیں کہنا”، یہ کہنے کے بعد اس کے آنکھوں سے آنسو بارش کی قطرے کی طرح ٹپکنے لگتے ہیں اور میں بھی آگے کچھ بول نہیں پاتا۔
امبل! تمہیں یاد ہے میں ہمیشہ تم سے جامعہ بلوچستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتا تھا کہ جامعہ بلوچستان میں پڑھنا میرا خواب ہے کیونکہ میں خیالاتی طور پر جامعہ بلوچستان سے جڑا ہوتا تھا۔ اور میں نے تمہیں یہ بھی کہا تھا کہ جامعہ بلوچستان سے میں اس وقت جڑا جب میں نے سر شیردل غیب کو پڑھنا شروع کیا تھا۔
شیردل غیب کو پڑھنا میرا شعوری فیصلہ تو نہ تھا مگر ایک حادثہ ضرور تھا۔ حادثہ اکثر و بیشتر نقصانات کے شکل میں دیکھنے کو ملتے ہیں مگر یہ حادثہ نقصانات کا الٹ ثابت ہوا۔
میں نے آپکو کئی مرتبہ شیردل غیب کے بارے میں کہا تھا۔ دنیا شیردل غیب کو ایک غیر ذمہ دار، شرابی ، بدکردار ، معاشرے کے لیئے ناسور سمیت مخلتف القابات سے نوازتا ہے مگر میرے لیے شیردل ایک استاد, احساس سے بھرا انسان، انسانیت کے درد و تکالیف کو سمجھنے اور رکھنے والا شخص ہے۔
شیردل نے جو ظلم و جبر اور بے بسی دیکھا تو اس محسوس بھی کیا جو کہ ایک زندہ شخص کی علامت ہے۔ اگر شیردل میڈیکل کی ڈگری لے کر یا کمیشن آفیسر بن کر دیگر انہی شعبات سے جڑے لوگوں کی طرح ظالم،جابر، انسانیت کا قاتل, غریب کا حق مارنے اور اپنا پیٹ بھرنے والا انسان ہوتا تو شاید یہ نام نہاد معاشرہ اس کو “ہیرو” اور سب کے لیئے ” آئیڈل” قرار دیتا۔
میں آج اس جامعہ کا حقیقی حصّہ ہوں جو شیردل کے خوابوں کا مسکن تھا۔ اس نے ایک زندگی اور موت یہیں پہ گذارا تھا اور اس جامعے کے درختوں تلے بیٹھ کر مطالعہ کرنا میرا خواب تھا۔
تمہیں یاد ہے تم نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم دونوں ایک ساتھ جامعہ بلوچستان میں داخلہ لیں گے اور یہ بات سُن کر میرے خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ پتہ نہیں میں نے اپنے اور تمہارے لیئے اس جامعے سے منسلک کتنے خواب دیکھے تھے، جن کو حقیقت میں بدلنا میرا سب سے بڑا خواب تھا۔ مگر صد افسوس کہ یہ خواب فقط خواب ہی رہ گئے۔ ان کو حقیقت میں بدلنا بھی ” ایک امر ہوا خواب” ہوگیا۔
میں اس وقت جامعہ کے درختوں کے نیچھے بیٹھا ہوں، میرے سامنے کئی لڑکے اپنی محبوباوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل رہے ہیں اور میں اپنے خواب کی بس خواب دیکھ رہا ہوں۔
جانے کیوں مجھے آج خوابوں سے نفرت ہورہی ہے، مجھے لفظِ احساس، جذبات, انسانیت زہر کی مانند لگ رہے ہیں۔ تمہیں یاد ہے، تم مجھے ہر وقت کہتی تھی کہ شاد میں راتوں کو خواب دیکھتا ہوں کہ ہم دونوں بہت خوش ہیں، تم میرے ساتھ ہو، تم ہمیشہ مزاق کرتے ہو اور اتنا ہنستے ہو کہ تمہیں اتنا خوش دیکھ کر میرے آنسو نکل آتے ہیں۔ میں دل میں اللہ سے دعا مانگتی ہوں کہ میرے شاد کو ہمیشہ اسی طرح خوش رکھنا۔
تم ہمیشہ مجھ سے فون پر مستقبل کے حوالے سے بات کرتی تھی، تمہیں کبھی بھی پیسہ، شاہان زندگی اور بڑے اسٹیٹس والے انسان کا شوق نہیں تھا۔ تم ہمیشہ کہتی تھی کہ ہم دونوں کلانچ( میرا آبائی گاؤں جہاں پیدا ہوا تھا) میں سب سے الگ ایک جھونپڑی میں رہائش پذیر ہونگے اور ہمارے ساتھ صرف نیچر (ابر) کا ساتھ رہیگا۔
میں جامعہ بلوچستان کے سر سبز درختوں کے نیچے بیٹھ کر تم سے مخاطب ہوکر تم سے زندگی کے بارے میں تمہاری نظریئے کا پوچھ رہا تھا اور تم کتنی خوبصورت انداز میں زندگی کو بیان کر رہی تھی کہ فقط سانسیں لینے اور دن کو رات اور رات کو دن کرنے سے مراد قطعاً زندگی نہیں۔ زندگی وہ ہے جس میں تم خود کو لوگوں میں زندہ دیکھ سکو، تم انسان اور انسانیت کے وجود , انسان کے درد و تکالیف کا احساس ہونا، زندگی کو دوسروں کے لیے کارآمد بنانا، معاشرے میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کی کوشش ، نیچر سے قربت اور اس کی عزت و احترام ، انسان کو دنیا میں آزاد، متحرک اور زندہ رکھنا زندگی کہلاتا ہے۔
میں نے ہنستے ہوئے مزاقاً تمہیں کہہ دیا کہ تم زندگی پر کب کتاب لکھو گی؟ تم نے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا قلم پیار سے مجھے مارتے ہوئے کہہ دیا کہ تم کبھی نہیں سدھروگے، پھر دیر تک ہنستی رہی اور میں تمہیں مسلسل دیکھتا رہا، میں اس وقت اپنے آپ اور اپنے دوست سے بالکل دور تھا تم ہنستی جارہی تھی، میں پتہ نہیں کیا کیا سوچتا اور کہاں سے کہاں جارہا تھا۔
اچانک کسی اجبنی نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ یہ کہہ کر مجھے اس دنیا سے نکالا کہ رات کے 8 بج چکے ہیں اب جامعہ بند ہورہا ہے لہذا آپ اپنے گھر چلیں۔ جب میں نے سر اٹھا کر چاروں طرف نظر دوڑایا تو نہ تم کہیں نظر آئے نہ کوئی انسان نہ کوئی فرشتہ۔ غور کیا تو دیکھا میرا چہرا آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔
میں وہاں سے اٹھ کر کتابیں بغل میں تھامے کمرے کی طرف روانہ ہوا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔