افغان امن معاہدہ
لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات اور بات چیت کے کئی دور مکمل ہوچکے ہیں، دونوں فریق حتمی اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئے ہے، بہت سے نکات پہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوچکی ہے لیکن افغانستان میں امن کی بحالی، پائیدار حکومت کی قیام اور مستحکم و ترقی یافتہ افغانستان کی جانب پیش قدمی کا خواب پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، امریکا و طالبان کے درمیان بات چیت کی جو خبریں میڈیا میں رپورٹ ہورہے ہیں ان خبروں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کا مقصد افغانستان سے اپنی افواج کی پرامن انخلاء ہے وہ پرامن افغانستان سے زیادہ اپنی افواج کی واپسی کے لئے پریشان دکھائی دے رہی ہے، کیونکہ پرامن افغانستان کے لئے سب سے ضروری یہ تھا کہ افغان عوام کو اس امن مذاکرات کے عمل میں شامل کیا جاتا ان کی آراء و تجاویز کو سنا جاتا ،انکی خدمات و تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کیا جاتا لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آرہا بلکہ سیاسی طور پر منقسم افغان عوام کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ پالیسی امن کی جانب بڑھنے کے بجائے مزید خونریزی، داخلی تنازعات کو بڑھانے اور خانہ جنگی کا باعث بنے گی، افغان عوام جو امن کے لئے کئی دہائیوں سے سفر کررہے ہیں وہ مزید سفر کرتے رئیں گے۔ امریکی افواج کی انخلاء سے افغانستان میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کی مداخلت مزید بڑھے گی، افغان سیاست اور دیگر اندرونی معاملات میں مداخلت سے افغانستان مزید غیر مستحکم اور بے چینی کا شکار ہو گا۔
ایک طرف امریکہ امن مذاکرات کی کامیابی کی نوید سنا رہا ہے اور یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے کامیابی کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں اور آئندہ کچھ دنوں یا ہفتوں میں مذاکرات کا مرحلہ مکمل ہوجائے گا ،لیکن دوسری جانب افغان حکومت نے امریکہ و طالبان معاہدے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس معاہدے سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے۔
صدر اشرف غنی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہے، اس علاوہ اعلی امریکی حکام بھی اس معاہدے کو لے کر غیر یقینی کے شکار ہے، امریکی سیکرٹری خارجہ نے بھی معاہدے پر دستخط سے انکار کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن بھی معاہدے کو لے کر گومگوں کا شکار ہے، اب تک فریقین ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے، اس علاوہ افغان حکومت اور عوام کی عدم شرکت سے یہ معاہدہ الجھاو کا شکار رہے گا اور کابل کے دفاع کا معاملہ مزید پیچیدہ شکل اختیار کرے گا۔
مذاکرات کے ساتھ ساتھ امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کو دباو میں لانے کے لئے بھر پور جنگی طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں، اس دوران طالبان کے حملوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، امریکی فوج کی جانب سے بھی طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی جاری ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اور طالبان پرامن افغانستان کی خواہاں نہیں، بلکہ طاقت کے بل بوتے پر افغانستان پر حکمرانی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
طالبان چاہتے ہیں کہ افغانستان پر ان کی مکمل کنٹرول ہو، اور امریکا چاہتی ہے کہ امن معاہدے کے ذریعے وہ اس دلدل سے نکل جائیں لیکن کابل پر ان کا اثر و رسوخ برقرار رہے، افغانستان کے معاملات میں وہ ایک فریق کی حیثیت سے حصہ دار رہے۔
جبکہ افغان عوام کی خواہش ہے افغانستان میں امن، استحکام، ترقی اور خوشحالی ہو، انسانی حقوق کی تحفظ ہو، خواتین کو برابری کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، تعلیمی حقوق حاصل ہوں۔
لیکن اس کے برعکس امریکہ اپنی افواج کی پرامن انخلاء کو یقینی بنانے کے لئے افغان عوام کو آگ و خون اور خطے کو بدامنی میں دھکیل رہی ہے، اگر واشنگٹن، کابل کو بدامنی،خانہ جنگی میں جھونک کر چلایا گیا تو شاید واشنگٹن بھی محفوظ نہ ہو اور 9/11 جیسے حملوں کی خوف موجود رہے گا۔
امریکہ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ سمیت دیگر شدت پسند قوتوں کی خاتمے کے لئے افغانستان میں قدم رکھا تھا 19 سال افغانستان میں رہنے کے بعد شدت پسندوں کے خاتمے کے بجائے طالبان سے معاہدے کے صورت میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کو اختتام کی طرف لے کر جارہے ہیں اور امریکا نے جہاں سے دہشت گردی کیخلاف جنگ کا آغاز کیا تھا 19 سال بعد دوبارہ اس مقام پر پہنچا ہے، طالبان کے خاتمے کے لئے افغانسان کا رخ کرنے والے اب افغانستان کو طالبان کے حوالے کرکے نکلنے کے لئے راہ تلاش کررہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔