آو! مل کر آزادی مارچ نکالیں
تحریر: نوروز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بندوبستِ پاکستان میں تقریباً چھ بڑی قومیں قید ہیں، جن کا نام کچھ اس طرح سے ہیں بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی اور مہاجر پشتونوں کی آبادی زیادہ تر صوبہ پختونخواہ میں ہے۔ پنجابی زیادہ تر پنجاب میں بستے ہیں، سندھ میں سندھی زیادہ ہیں اور کراچی کے کچھ ایریا میں مہاجر رہتے ہیں انکی آبادی بھی کافی زیادہ ہے اور بلوچستان میں اکثریت بلوچوں کی ہے۔ بلوچ قوم میں تین زبانیں بولی جاتی ہیں بلوچی، براہوئی اور کھیترانی۔
پاکستانی فوج (پنجابیوں ) نے شروع ہی دن سے سب قوموں پہ ظلم کا بازار گرم کر کے رکھا ہے، اور اس کے سیاہ کرتوتوں کا دنیا کو اس لیئے پتہ نہیں چلتا کیونکہ پاکستانی افواج نے میڈیا کو مکمل اپنے کنڑول میں رکھا ہے، جو بھی خبریں ٹی وی یا کہ اخبار میں چلانا ہے پہلے اسکا پاکستانی آرمی سے اجازت لینا پڑتا ہے۔ پھر انکو چلایا جاتا ہے۔
کچھ سال پہلے فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک آپریشن چلایا گیا، طالبان کے خلاف، وہاں کئی ہزار لوگوں کو بے گھر کیا گیا، کئی ماوں کا لخت جگر چھینا گیا، کئی بہنوں کے بھائیوں کو مارا گیا، کئیوں کے جوان بیٹوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا، کئی عزت دار گھروں سے انکے جوان بیٹیوں کو اٹھا کر لے کر جانے کے بعد کچھ دن تک اپنے ساتھ رکھ کر پھر انکو مار دیا گیا، ہزاروں لوگوں کو بے گھر کرکے انکے گھروں کو بارودی مواد سے اڑایا گیا۔
بقول منظور پشتین کے طالبان کمانڈر فوج کے ساتھ انکے چھاونیوں میں رہائش پذیر تھے اور عام لوگوں کو مارا جارہا تھا، تاکہ دنیا کو باور کرائے جائے کہ پاکستانی فوج دہشتگردوں کے خلاف لڑرہی ہے اور قربانیاں دے رہی ہے تاکہ امریکہ سے امداد کے طور پر لاکھوں ڈالر حاصل کر سکے۔
اسی آپریشن میں لاکھوں پشتونوں کو بےگھر کیا گیا، یہی ظلم و ستم سے تنگ آکر پشتونوں نے اپنی آواز مہذب دنیا تک پہنچانے کیلئے اور اپنے پیاروں کو چھڑوانے کیلئے اپنا پارٹی پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) بنایا اور یہی پارٹی اب دنیا کو بار بار بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ پاکستان کی اصلیت کیا ہے؟ اور انکے جلسوں میں ہزاروں کے حساب سے لاپتہ لوگوں کے خاندان آکر اگلے جلسہ کیلئے باقائدہ پیسے بھی جمع کرتے ہیں۔
اسی طرح سندھ کے لوگوں کو بھی اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے اور انکی لاشوں کو مسخ کر کے پھینکنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہےاور مہاجروں کے ساتھ بھی پاکستانی فوج نے یہی رویہ اپنایا ہوا ہے۔
بلوچوں کے ساتھ تو انکا پہلے ہی دن سے نہیں بنتا، شروع ہی دنوں سے بلوچوں کا انہوں نے قتل عام کرنا شروع کیا تھا اور انکے لاشوں کو مسخ کر کے آنکی آنکھیں نکالنا، انکے لاشوں کی بے حرمتی کرنا، یہ پاکستانی فوج کا ہمیشہ سے شیوا رہا ہے۔
دو سال پہلے پاکستانی فوج نے اسپلنجی کے علاقے پشک کے مقام پر ایک نوجون کا تشدد زدہ لاش گرایا اور علاقے کے لوگوں کو انکا لاش تک اٹھانے نہیں دیا گیا اور جانوروں نے کاٹ کھایا وہ لاش۔
اب تو بات ہمارے عورتوں تک آ گئ کہ اب عورتوں کو اٹھا کر انکی عزتیں لوٹ رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے ماما قدیر نے جس طرح بلوچ بیٹیوں کے ساتھ ملکر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے لانگ مارچ نکالا یقیناً وہ قابل تعریف لانگ مارچ تھا، تعداد میں بھی کم اور منزل بھی پرکھٹن ساتھ میں عورتیں بچے اور کھانے کیلئے کچھ نہیں۔ ایک طرف دشمن ریاست اور اسکے دلال جو اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لیئے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر گھٹیا کام کرکے ہر چوک پہ کچھ غنڈوں کے ساتھ کھڑے رہ کر ماما اور انکے ساتھیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرکے انکا لانگ مارچ ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ دنیا کو بلوچستان کے حالات سے بے خبر رکھ سکیں۔ اور ایک طرف سرکار کے کنڑول والا میڈیا جو کہ ہر بار زہر اگل اگل کر ہر دن ماما اور بلوچ بیٹیوں کے بارے میں نئی نئی جھوٹ بھول کر انکے لانگ مارچ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی تھی۔
دوسری طرف وطن کے کچھ بیٹیاں اپنے بھائیوں کے تلاش میں اور کچھ بیٹیاں اپنے باپ کی تلاش میں اور ایک چھوٹا بچہ علی حیدر اپنے باپ کے تلاش میں پاگل وقت اور حالات کے ستائے ہوئے اور اپنے لاپتاوں کو بازیاب کرانے کیلئے مرنے تک کیلئے تیار موت کو خوشی خوشی گلے لگانے کیلئے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھ رہے تھے اور فخر سے آگے بڑھ کر آواز بلند کر کرکے نعرے لگا رہے تھے اور اپنے پیاروں کے تصویر سینے سے لگا کر آنکھوں میں آنسو دل میں ہزاروں درد، درد بھرے لہجے کے ساتھ اپنے پیاروں کو تلاشتے ہوئے کئی ہزار کلومیٹر پیدل چل کر اپنے قوم کے نوجوانوں کو جگانے کیلئے لانگ مارچ کر کے بلوچ نوجوانوں جگا رہے تھے۔
اس بار آئیں! اپنے مادر وطن کو ان درندوں سے بچانے کیلئے اور اپنے پیاروں کو ان یزیدوں کے چنگل سے واپس لانے کیلئے اور دنیا کو انکی اصلیت بتانے کیلئے ایک آزادی مارچ کا انعقاد کرکے ان کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مزاحمت کریں اور پوری دنیا کو بتا دیں کہ اب اس ناپاک ریاست کے ساتھ ہمارا گذارہ نہیں ہوگا، جن کے ہاتھوں ہمارے ماں بہن بیٹیوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں
ایک ماما قدیر کی لانگ مارچ سے اس قدر ڈرپوک ریاست خوف زدہ ہوگیا کہ انکے انٹرویو لینے والے اینکر پرسن حامد میر کو بھی نشانہ بنایا گیا، اور اسکے بعد بھی اسکی بوکھلاہٹ نہیں گئی، تو اس نے نیوکاہان میں بلوچ فرذندوں کے آخری آرام گاہ (قبروں) تک کو مسمار کردیا۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے دشمن اس قدر بزدل ہوگیا ہے، آج ہمارے سرزمین پر کہ اب اسکو عورتوں، بچوں، بوڑھوں یہاں تک کہ بلوچوں کے قبروں تک سے ڈرلگنے لگا ہے۔
ایک بار اگر ہم سب بلوچ ملکر ہر گھر سے صرف ایک ایک فرزند آزادی مارچ کے لیئے نکل کر اپنے مادر وطن کی آزادی کی مانگ پوری دنیا کے سامنے رکھ دیں تو میرے خیال میں یہ بات پوری دنیا میں منٹوں میں پھیل جائیگی اور بلوچ وطن کی آزادی کی مانگ پوری دنیا پاکستانی ریاست سے کریگی، ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی ریاست کی میڈیا یہ خبر شائع نہیں کریگی، مگر سوشل میڈیا تو ہمارے پاس ہے، اسکے ذریعے پوری دنیا کو بتا کر پاکستان کا اصلیت ظاہر کرینگے، اگر ہم اپنے وطن اور اپنے ننگ و ناموس کیلئے اتنا نہیں کر سکتے تو میرے خیال میں ہمیں اس وطن میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔