آواران کا ہولناک زلزلہ – سلطان فرید شاہوانی

297

آواران کا ہولناک زلزلہ

تحریر: سلطان فرید شاہوانی

دی بلوچستان پوسٹ

24 ستمبر 2013 وہ دن ہے جس دن اپنے بچے کو بچانے کیلئے جانے والی ماں واپس لوٹ کر نہ آسکی۔ یہ وہ دن ہے جس دن ہم نے 700 سے زائد جانیں کھودیں۔

آج سے ٹھیک 6 سال قبل ٹھیک چار بجکر تیس منٹ پر 7.29 کو ہولناک زلزلے کے جھٹکے نے بلوچستان کے ضلع آواران کو چشم میں تہہ و بالا کردیا۔ پوری آبادی ملیامٹ ہوگئی۔ کئی نامور ہستیاں زلزلے میں وفات پاکر اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے، جن کی یادیں آج بھی ذہنوں میں زندہ ہیں۔ آج بھی ذہن و دماغ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ یوں پل بھر میں کیسے یہ شہر ایک قبرستان بن گئے۔ کیسے وہ نامور ہستیاں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن قدرت کی منشاء میں انسان کا کیا عمل دخل۔ اس قیامت خیز تباہی نے پہلے سے پسماندہ ضلع آواران کو اور پسماندہ کردیا۔

میں آج تک وہ لمحات یاد کرتا ہوں تو ایک دم خاموش ہوجاتا ہوں اور آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہوجاتے ہیں ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ یوں اچانک زمیں ہلنے لگی مکانیں گرنے لگے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور دھواں اور کچھ نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے میں مصروف عمل تھا۔ یوں تو وہ دن قیامت سے کم نہیں تھا۔ ہر کوئی خود کو سلامت پانے کے بعد اپنوں کے حال پوچھنے گھر کی طرف دوڑ پڑا۔ گھر پہنچ کر پتا چلا کہ کچھ والدین نے اپنے لخت جگر کھوئے ہیں تو کچھ نے اپنے بھائی کچھ نے تو پورا خاندان ہی کھودی تھی۔

جب سورج ڈوب گئی تو رات ایک اور قیامت نما منظر اپنے ساتھ لے کر آگئی۔ نہ کھانے کا فکر اور نہ ہی سونے کا فکر۔ پوری رات میت کے سرہانے بیٹھ کر رو رو کر لوگوں نے رات گذاردی۔ جب صبح ہوئی تو سورج اپنے ساتھ ایک اور دکھ لے کر آگئی۔ شیلٹر کے تلاش میں نکلنے والے لوگ واپسی پر مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں لاسکے۔

یوں زلزلے کے جٹھکوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا، ہر دن کے زلزلے کے جٹھکوں نے لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کیا۔ اسی طرح 4 دن بعد 28 ستمبر کو ایک اور بڑے جٹھکے نے مشکے کےایک اور علاقے نوکجو کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا پھر ہمیں کچھ اور قیمتی جانیں گنوانی پڑیں۔

آج تک یہ بات مجھے تنگ کرتی ہے کہ اس ماں کیلئے، وہ کیسا لمحہ ہوگا جس کے سامنے اس کا بچہ مٹی تلے دب رہا تھا اور وہ ایک بے بس کی طرح کھڑی رہی اور کچھ نہ کرسکی۔

آج قلم میں وہ دم ہی نہیں رہا کہ 24،28 ستمبر 2013 کے وہ ہولناک مناظر اور ہیبت ناک گھڑی کو تحریری شکل میں عکس کر سکے، لیکن اتنا ذہن میں ابھی تک تازگی ہے کہ زمیں کے خوفناک گڑگڑاہٹ اور تیز گردش و جنبش نے ولولے اور عجیب خوف و ہلچل برپا کردی جو کئی دنوں بعد بھی نہ سنبھل پایا۔

اس یولناک زلزلے نےعلاقہ مکینوں کو سر تھپانے اور چھت کی تلاش میں قریبی علاقے خضدار، لسبیلہ اور دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ ان ہجرت کرنے والے خاندانوں میں کچھ خاندانیں آج بھی اپنے علاقے سے دورمہاجرین کی زندگی گذارہے پر مجبور ہیں۔ یوں یہ محض ایک قیامت خیز دن نہیں بلکہ بہت لوگوں کیلئے اس خوبصورت شہر، ہنسنے والے مجالس، کھیل اور کود سے جدائی کے دن کا سبب بن گیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔