آصف ساجدی کی جان کی قیمت ایک ہزار روپے – ڈاکٹر شکیل بلوچ

301

آصف ساجدی کی جان کی قیمت ایک ہزار روپے

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اسی ہفتے حواس باختہ تحصیلدار پسنی اپنے عملے کے ساتھ ملکر آصف ساجدی بلوچ کو گولیاں مارکر شہید کرنے کے بعد اب اپنے کارستانیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے مقتول کی شہادت کو ایک حادثہ ظاہر کرکے گاڑی کا الٹنا سبب بتا رہا ہے جو سورج کو انگلی سے چپھانے کے مترادف ہے۔ یاد رہے اسی ہفتے آصف ساجدی بلوچ اپنا ٹرک خود ڈرائیو کر رہا تھا، جب پسنی نلینٹ کے مقام پر تحصیلدار نے انکو روک کر بد تمیزی اور بد کلامی کی اور ایک ہزار روپے رشوت نہ دینے پر تحصیلدار پسنی حواس باختہ ہوکر اپنے دیگر چند لیویز اہلکاروں کے ہمراہ گاڑی پر فائرنگ کردی، جسکے نتیجے میں آصف ساجدی بلوچ کو دو گولیاں لگیں۔ ایک گولی ریڈھ کی ہڈی اور دوسری گولی پیٹ کے اندر سے پھیپڑوں کو perforate کرکے آر پار ہوئی۔ آصف ساجدی اور انکے دوسرے ساتھی گاڑی کلینر شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد لواحقین نے بذریعہ جہاز زخمیوں کو کراچی منتقل کیا، جہاں آصف ساجدی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت نوش کرگئے۔

ہسپتال عملے نے پوسٹ مارٹم کرکے لاش کو ورثا کے حوالے کیا۔ پوسٹ مارٹم انوسٹی گیشن سے یہ پتہ چلا کہ بے لگام اور بے رحم رشوت ستانی میں مدہوش تحصیلدار کی دو گولیوں نے نوجوان فرزند آصف بلوچ کی جان لی ہے۔ اور رشتے داروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر جب گاڑی کو چیک کیا، جہاں تحصیلدار صاحب کے گولیوں کے نشانات واضح طورپر موجود ہیں۔ مگر اس حقیقت پر پردہ ڈالنے اور اپنی ناکامی اور جرم کو چپھانے کیلئے تحصیلدار غلط بیانات دے رہے ہیں کہ مقتول کی موت گاڑی الٹنے سے ہوئی ہے جوکہ شہید کی لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکانے کے مترادف ہے۔

واقعے کے محرکات سب کے سامنے واضح ہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور گاڑی پر لگی ریاستی تحصیلدار کی بے رحم اور قیمتی گولیوں کے نشانات موجود ہیں، جس نے ایک انسان کی جان لیکر اس بات کو واضح کیا کہ اس ریاست کی لیویز اور عوام کے محافظ کی ایک گولی کسی بلوچ نوجوان کی جان سے بہت حد تک قیمتی ہے۔

ویسے اگر حقائق کو پرکھنے اور سمجھنے کی زحمت کی جائے تو یہ ایک تاریخی بات ہوگی کہ تحصیلدار صاحب کے ہاں ایک ہزار روپے کسی بلوچ فرزند کی جان سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ آصف بلوچ جس نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا مگر اس ریاست میں بے روزگاری اور اپنے خاندان کی معاشی حالت کوسامنے رکھتے ہوئے اپنی پڑھائی کو ترک کرکے مزدوری کا راستہ اختیار کرلیا تاکہ اپنے خاندان کی کفالت کرے، اور گذر بسر ہوسکے۔ شاید آصف بلوچ کے تخیل اور تصّور میں یہ بات ہرگز نہیں تھی کہ ایک تحصیلدار عوام کے ٹیکسوں سے جمع کیے گئے حکومتی تنخواہ لیکر پھر اس عوام کو تحفظ دینے کے بجائے خود ان پر گولیاں برساتی ہے۔

واقعی قصور عوام کا اپنا ہے جنہوں نے کئی سالوں سے اسی روڈ پر تحصیلدار جیسے لوگوں کو رشوت دیکر انکو انکے منصب اور ذمہ داریوں سے اس حد تک غافل کی ہے کہ اب انکے ہاں صرف ہزار روپے نوٹ اہمیت رکھتی ہے لیکن انسانی زندگی نہیں۔ اگر شہید آصف بلوچ کی قتل پر اس مرتبہ عوام نے خاموشی اختیار کی تو شبانہ روز ہم آصف جیسے نوجوانوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے اور ملک کے محافظ اپنے بینک بیلنس برابر کرتے رہیں گے۔

مکران ٹرانسپورٹرز کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اگر آصف کے شہادت میں ملوث لوگوں پر کارروائی نہیں کی گئی تو وہ میدان میں آکر روڈ بلاک کرکے اپنا احتجاج جاری رکھیں گے جو کہ عوام کی جانب سے ایک بہترین اقدام ہے۔ اور تمام انسان دوست لوگوں کو انکی بھرپور حمایت کرنی چاہیئے۔ اسکے علاوہ بالخصوص آواران کولواہ کے لوگوں کو اس واقعے میں لواحقین کا ساتھ دینا چاہیئے کیونکہ انکے لئے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے باگی ولد تاج محمد ساکن آواران گیشکور سنڈم نے اسی نوعیت کی جام شہادت نوش کی ہے۔ اور اسکے علاوہ علی ولد محمد یوسف ساکن آواران ماشی نے بھی جام شہادت نوش کی ہے۔

تمام مکاتب فکر ، تاجر برادری، ٹرانسپورٹرز ایک ساتھ ہوکر ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں تاکہ آئندہ راستے کے مسافر راہزنوں کی سفاکیت سے محفوظ ہوں۔

شہید آصف بلوچ کی روح کے ساتھ انصاف کیا جائے جو کہ اپنی جوانی میں دیکھے گئے ہزاروں خواب پورا نہ کرسکے اور ظالموں کی بے رحم گولیوں کا نشانہ بن کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔