آصف ساجدی کا بہیمانہ قتل، اصل حقائق؟ ۔ ڈاکٹر اکرام رخشانی

202

آصف ساجدی کا بہیمانہ قتل، اصل حقائق؟

تحریر۔ ڈاکٹر اکرام رخشانی

 دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان وہ بد بخت خطہ ہے، جہاں کوئی بھی کسی کا قتل کرکے قانون کی آنکھوں میں مٹی ڈال کر قانون کی آنکھوں سے با آسانی اوجھل ہوسکتا ہے۔ کہتے ہیں ملک میں قانون اندھا ہے، لیکن بلوچستان میں یہ اندھا پن ذرا زیادہ ہی نظر آتا ہے۔ اور یہاں قانون کو توڑنے اور پھر قانون کے سامنے غلط بیانی کرنے والے خود ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ ہوں تو پھر یہاں قانون کا نفاذ شاید ناممکن ہو۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں قانون نافذ کرنے والا ادارے محکمہ لیویز کی۔ جس نے گذشتہ دنوں سر عام ایک بیگناہ شہری کا قتل کرکے اس کو گولیوں سے چھلنی کرکے قانون کی دھجیاں اڑا کر پھر قانون کے سامنے غلط بیانی کرکے کس طرح خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرتا ہے۔ آیئے حقائق کی بنیاد پر اس کہانی کو شروع سے بیان کرتے ہیں۔ اس گہناؤنی کہانی کے اندر چھپی حقیقت آپ کو حیران کر دے گا۔

آصف ساجدی ولد ڈاکٹر اللہ داد ساجدی جو کہ اپنے علاقے آواران سمیت پورے مکران میں جانے پہچانے لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور مال برداری میں ایک اعلیٰ نام رکھتا تھا۔ آصف ساجدی اپنے روز کی معمول پر اپنے کاروبار کی مناسبت سے اپنی دس ویلر گاڑی کے ساتھ تربت سے کراچی کے راستے محو سفر ہوتا ہے۔ چلتے چلتے راستے میں تلار اور نلینٹ کے درمیان واقع لیوز چیک پوسٹ پہنچ جاتا ہے۔ یہ لیوز چیک پوسٹ تحصیلدار نور خان کی نگرانی میں قائم ہے۔ چیک پوسٹ پر آصف ساجدی کو لیوز اہلکار روکتے ہیں۔ قانون کی پاسداری اور قانونی عمل کے ساتھ تعاون کرکے موصوف اپنی گاڑی روکتا ہے اور لیویز کو گاڑی کی چیکنگ کرنے دے دیتا ہے۔ لیوز اہلکار گاڑی کی مکمل چیکنگ کرتے ہیں چیکنگ کے بعد گاڑی سے نہ ان کو کوئی غیر قانونی ڈیزل ملتا ہے اور نہ ہی کوئی غیر قانونی اشیاء برآمد ہوتے ہیں۔ برآمد بھی کیا ہونا تھا جب گاڑی ہی خالی جا رہی تھی۔ لیکن اپنی من مانی اور غنڈہ گردی کرکے لیویز مزید وقت لگا کر اس گاڑی کو روک کر نہ صرف موصوف کا وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ اسے ڈرائیور اور گاڑی سمیت کچھ وقت کیلئے بلا جواز روڑ پر روکے رکھتے ہیں۔ چیکنگ مکمل ہونے کے بعد کس قانون کے تحت ایک شہری کی تذلیل کر کے اسے گاڑی اور ڈرائیور سمیت بلا جواز سڑک پر روکے رکھا گیا، اس کا جواب دینے سے لیویز قاصر ہے۔

رات کے تقریبا 11 بج جاتے ہیں۔ اب تک گاڑی لیویز چیک پوسٹ پر بلا وجہ کھڑی رہتی ہے۔ آخر اس غیر قانونی روکنے کے حدود کو برداشت کرکے موصوف کے صبر اور تنگ آنے کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور موصوف اپنی گاڑی پر خود سوار ہو کر گاڑی روانہ کرکے کراچی کی جانب اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ چلتے چلتے آگے آرمی کا چیک پوسٹ بھی آجاتا ہے۔ چیک پوسٹ پر دوبارہ رک کر اپنا شناخت کروا کر آرمی چیک پوسٹ پر اپنی گاڑی اور شناختی کارڈ کا اندراج کروا کر پھر روانہ ہوجاتا ہے۔ جس کا گواہ مذکورہ آرمی چیک پوسٹ خود ہے۔ لیکن چیک پوسٹ سے آگے چند میل کے فاصلے پر جب گاڑی پہنچ جاتی ہے تو پیچھے سے نلینٹ لیویز چیک پوسٹ کی گاڑی آجاتی ہے اور بلا اشتعال آصف ساجدی کی گاڑی پر فائرنگ کرتی ہے۔ نہ گاڑی کو رکنے کا عندیہ دیتے ہیں اور نہ خبردار کرتے ہیں۔ بلکہ اپنی طاقت اور غرور کے نشے میں لیویز کے اہلکار آصف ساجدی کی گاڑی پر فائرنگ کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آصف ساجدی کو ریڑھ کی ہڈی میں ایک گولی لگتی ہے اور ایک گولی پھیپھڑوں میں گھس جاتی ہے۔ جو کہ بعد میں جاکر اس کی موت کے اسباب بن جاتے ہیں۔ گولیوں کے لگنے کی وجہ سے شہید آصف ساجدی شدید زخمی ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ گاڑی کو قابو نہیں کر پاتا اور گاڑی الٹ جاتی ہے۔ گاڑی کے الٹنے کے بعد لیوز اہلکار زخمی آصف ساجدی کو اپنی گاڑی میں پھینک کر اسے گوادر جی ڈی اے پسپتال لے جاتے ہیں۔ اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے لگ بھگ رات کے تقریبا 2 بج جاتے ہیں۔ اور یہاں لیویز حواس باختہ ہوکر اپنے جرم کو چھپانے کی خاطر قانون کی دھجیاں اڑا کر جھوٹی میڈیکل رپورٹ بناتا ہے جس میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ موصوف کی گاڑی روڑ پر ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے موصوف کے جسم کے حصے ریڑھ کی ہڈی میں ایک تیز دھار نٹ چلا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے موصوف شدید زخمی ہے۔

جب رات گئے تک آصف ساجدی کے خاندان والوں کو اسکے ایکسیڈنٹ اور تشویش ناک حالت کی خبر ملتی ہے تو وہ اسی وقت ہسپتال پہنچ کر اسکی حالت دیکھ کر فوراً اسے کراچی لے جانے کیلئے کراچی سے 17 لاکھ روپے میں ایمرجنسی ائیر ایمبولینس کا بندوبست کرتے ہیں۔ اور کراچی منتقل کرتے ہیں۔ کراچی پہنچ کر اسے فوراً جناح ہسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ اب تک اسکے خاندان والوں کو نہیں پتہ کہ اس حادثے کی وجوہات کیا ہیں۔ وہ اس وقت تک اسے ایکسیڈنٹ سمجھتے رہے جب کراچی ہسپتال میں ریڑھ کی ہڈی کا ایکسرا لیا گیا۔ یہ گوادر لیوز رپورٹ اور لیوز کی غلط بیانی کا سارا پردہ فاش کر دیتا ہے۔ اب ساری کہانی اک نیا رخ اختیار کر جاتی ہے۔

ایکسرے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ریڑھ کی ہڈی میں ایک گولی نظر آتی ہے اور دوسری گولی پھیپھڑوں میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ اب پتہ چل جاتا ہے کہ اصل میں اس واقعے میں کوئی قدرتی حادثہ پیش نہیں آیا ہے بلکہ اسے تحصیلدار نور خان اور اس کے غنڈے لیوز اہلکاروں نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا ہے۔ یہ سب جان کر آصف ساجدی کا خاندان ایک اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لیکن موصوف کی حالت انتہائی تشویش ناک ہونے کی وجہ سے وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بستا ہے۔ لیکن اس دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم پر لیوز کی فائرنگ کا راز بھی فاش کر چلتا ہے۔

جب مقتول کا خاندان اس بہیمانہ قتل اور گوادر لیوز کی غلط بیانی کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر گوادر کو آگاہ کرتا ہے تو ڈپٹی کمشنر اس واقعے سے متعلق کراچی کی میڈیکل رپورٹ و پوسٹ مارٹم رپورٹ طلب کرتا ہے۔ جن میں واضح طور لکھا گیا ہے کہ یہ قتل فائرنگ کے نتیجے میں پیش آیا ہے اور جسم میں دو گولیوں کی موجودگی بھی واضح ہے۔ ان ثبوتوں کے پیش نظر ڈپٹی کمشنر گوادر یہ واقع کمشنر مکران ڈویژن سے بیان کر کے شہید آصف ساجدی کے خاندان کو اس کیس کی تحقیقات کی یقین دہانی کراتی ہے۔ اور اس کیس پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ واقعے کی تحقیقات کریگی۔ لیکن شہید آصف ساجدی کے خاندان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ تشکیل کردہ کمیٹی میں کچھ لوگ قابل اعتراض ہیں۔ اور اس کمیٹی پر ہمارے تحفظات ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کوئی نئی اور منصفانہ کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ شہید آصف ساجدی کے قتل کا سراغ لگا کر قتل میں ملوث مجرموں کو قانون کے تحت سخت سے سخت سزا دی جائے۔ جو کہ واضح طور تحصیلدار نور خان اور اس کے ساتھ واقعہ میں ملوث لیوز اہلکار مجرم قرار پائیں گے جو کہ خود اس غیر قانونی کاروائی میں برائے راست ملوث ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گاڑی خالی ہونے کے باوجود بلا وجہ گاڑی کو کیوں روک کر مقتول کی تذلیل کی گئی؟

ایک غیر مسلح اور چلتی گاڑی پر بلا جواز فائرنگ کیوں کی گئی؟

فائرنگ کے نتیجے میں زخمی اور پھر شہید ہونے والے آصف ساجدی کی جھوٹی میڈیکل رپورٹ اور لیویز کی جانب سے اپنے جرم کو چھپانے کیلئے غلط بیانی کر کے قانون کا مذاق اڑا کر قانون کی دھجیاں کیوں اڑائی گئیں؟

واقعے میں ملوث مجرموں کو کیا سزا ملے گی؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جوابدہ تحصیلدار نور خان، ملوث لیوز اہلکار، ڈپٹی کمشنر گوادر اور ڈی جی لیوز بلوچستان ہیں۔ ان سوالات کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ شہید آصف ساجدی کا خاندان شہید آصف ساجدی کے بہیمانہ قتل پر انصاف کے منتظر ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔