سانحہ 26 اگست، ایک اختتام یا ایک نئی ابتداء
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
26 اگست 2006 کو قابض ریاست نے ڈاڈائے بلوچ نواب اکبر خان بگٹی کو تراتانی کے پہاڑوں میں شہید کردیا، جنرل مشرف نے ریاستی اداروں کو مبارک بادی دی۔ یہ اعلان کیا گیا کہ اب مزاحمت دم توڑ چکی ہے ,اب مٹھی بھر عناصر ہیں جو جلد ہتھیار ڈال دینگے گویا ریاستی سطح پر ایک بلوچ سیاسی مدبر رہنما کی بہیمانہ قتل پر جشن منایا گیا۔
دوسری جانب بلوچ عوام نے شدید احتجاج کیا، جلاؤ گھیراؤ اور ہڑتالوں سے غم و غصے کا اظہار کیا۔ پورا بلوچستان جام ہوکر رہ گیا۔
نواب صاحب کی شہادت نے بلوچ سیاسی منظرنامہ پر آزادی پسند فکر کو حاوی کردیا۔
خود شہید نواب صاحب نے عمر کے آخری حصے میں جو فیصلہ کیا وہ یہی تھا کہ مظلوم کی بقاء مزاحمت میں ہے اور اپنے پوتے براہمدغ بگٹی سمیت دیگر بلوچ نوجوانوں کے لیے یہی نصحیت کی کہ اب آپ اس نظام میں ایڈجسٹ ہونے کا ہرگز کوشش نہیں کرنا بلکہ بلوچ قومی حق حاکمیت کے حصول تک جدوجہد کرنا۔
وہ خود عملی طور پر پیران سالی میں کسی سمجھوتے کی بجائے پہاڑوں پر گئے اور بلوچ مزاحمت میں ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ کہیں بھی ریاست اگر جبر کرتا ہے تو ڈیرہ بگٹی سے اسے مزاحمتی طور پر جواب دیا جائیگا اور اپنے قول و پیماں پر پورا اترتے ہوئے ڈاڈائے بلوچ نے مزاحمت کو ایک نیا رخ دیا۔
جب بالاچ نے ڈیرہ بگٹی کا رخ کیا تب وہاں ڈاڈائے بلوچ نے دیرینہ قبائلی تنازعات کو ختم کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا۔ ہمارے لیے آج بھی اکبر و بالاچ کا تصور کسی اساطیری تصور سے کم نہیں۔
بالاچ گورگیج جو نواب شہید کے پسندیدہ شاعر اور کردار رہے ان کو دوبارہ بالاچ کی صورت میں پاکر یقیناً وہ دلی طور پر پرمسرت ہونگے۔ دوسری جانب بالاچ نے بھی ایک عظیم انقلابی ورثے کا وارث خود کو ثابت کیا۔ اس نے دیرینہ تنازعات کو انقلابی جدوجہد کے خدوخال میں ڈھال دیا۔
بلوچ قومی تحریک کو ایک منظم سیاسی متحدہ پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے ڈاڈائے بلوچ نے جو کوشش کی اور بلوچ نیشنلسٹوں کو جس طرح متحد کرنے کے لیے وہ سرگرم عمل ہوئے ان کی سنجیدگی اس حوالے سے ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔آج واضح ہوچکا ہے کہ اکبر و بالاچ بن کر ہی قومی تحریک کے تنازعات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا اصلی ورثہ یہی کردار ہیں جنہوں نے قبائلی رجحانات سے بالاتر ہوکر قومی سطح پر تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ کچھ عرصے تک یہ ورثہ پس منظر میں چلا گیا اور ہم ریاستی طرز سیاست میں رنگتے چلے گئے یہاں تک کہ جنرل اسلم بلوچ نے عظیم قربانی سے دوبارہ فکر اکبر و بالاچ کو زندہ کردیا اور تمام تر توانائیوں کو ریاست کے خلاف مجتمع کردیا۔
ڈاڈائے بلوچ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سب سے بہترین طریقہ ان کے جدوجہد کو آگے بڑھانے کا ہے، ہم ان کے حقیقی وارث اسی صورت میں بن سکتے ہیں جب ہم قبائلی رجحانات سے بالاتر ہوکر عمل کرینگے۔
26 اگست ایک نئی ابتدا تھی اور اس ابتدا کو شعوری طور پر بلوچ قومی تحریک کو منظم کرنے کے حوالے سے منانا ہوگا۔ اپنا کردار سنجیدگی سے ادا کرنا ہوگا۔ مشکلات و مسائل ہم پر نہیں بلکہ ہمیں ان پر قابو پانا سیکھنا ہوگا اور اس کے لیے اتحاد لازم ہے لیکن اتحاد کے لیے اپنی سوچ کو وسیع کرنا لازم ہے۔
کردار الزام تراشیوں سے نہیں بنتے بلکہ عظیم عمل سے بنتے ہیں۔ جس طرح اکبر و بالاچ نے ثابت کیا اور جس طرح استاد اسلم نے اپنے لہو سے اس فکر کو مزید وسعت بخشی۔
26 اگست ایک نئے عزم کیساتھ ایک نئے عہد و پیمان کیساتھ کہ بلوچ جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ڈاڈائے بلوچ سمیت تمام عظیم شہدا کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائینگے اور آخری سانسوں تک ریاست سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ آزادی ہی ہمارا واضح مقصد ہے اور اسی کے لیے ڈاڈائے بلوچ نے قربانی دی اور ہم بھی کسی قسم کے قربانی سے پس و پیش نہیں ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں