ہجوم نہیں نظریہ
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آپ مروجہ نافذ نظام کے خلاف جب اٹھتے ہیں تب یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اٹھنے کے لیے نظریہ درکار ہوتا ہے جو ہجوم سے بے نیاز کردیتا ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی یہ بات بڑی شدت سے ذہن میں گردش کررہی ہے کہ “ہمیں ہجوم نہیں نظریہ چاہیئے۔” اپنے ایک مختصر سے سرکل کو نظریاتی بنیاد پر الگ کرنے، تربیت و ذہن سازی کے ذریعے ایک بڑی تعداد میں نوجوانوں کو تیار کرنا اسی سوچ کا نتیجہ ہے جس نے ہجوم بننے سے گریز کیا۔
بی ایس او آزاد یا استار بعد میں متحدہ پھر دوبارہ آزاد بن کر یہ سلسلہ جاری رہا اور ایک کیڈر آج بلوچ تحریک کے لیے تیار ہوگئی جس کی بنیاد نیشنلزم کا نظریہ رہا ہے۔
ہجوم میں رہ کر نعرہ بازی یا اسٹیج سجانے کی بجائے نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد نظریاتی کمٹمنٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ سنگت بشیر زیب نے چیئرمین بننے کے بعد کہا تھا کہ قوم ہمارے مقام کا تعین ہمارے کردار و عمل سے کرے۔
حمید شاہین تو کردار و عمل کو لے کر نہایت سنجیدہ اور مدبرانہ سوچ رکھتے تھے، وہ تحریک میں نظریاتی بنیادوں پر کردار و عمل کے تعین کے شدید خواہاں تھے۔
نظریہ ہو تو پھر انسان بھٹکتا نہیں، ذاتی انا پرستی کا شکار نہیں ہوتا، کسی بھی موقع پر تحریک کے تقاضوں سے غافل نہیں ہوتا۔ نظریہ انسان کو ہجوم سے بالاتر بنا دیتی ہے۔ ہجوم بننے کی صورت میں ہم یہ تجزیہ کرسکتے ہیں کہ علم و عمل میں شدید تضادات سامنے آتے ہیں۔ بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے اور عمل کچھ اور۔ پشتون دھرتی کے سینے پر جس پاکستانی فوج کے گولیوں و بموں کے نشانات ہے اکثریت پشتون انہی زخموں پر پاکستانی پرچم سجائے نظر آتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے جب ایک قوم ہجوم بن جاتی ہیں، تب اسٹاک ہوم سنڈروم جیسے علامات سرایت کرنے لگتے ہیں اور ستم رسیدہ اپنے آقا کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔
ہجوم زدہ سوچ کبھی پختہ نظریہ کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ وہ ہجوم کے دائرے سے باہر سوچنے پر ہی خوفزدہ ہوتا ہے جبکہ اصل حقیقت ہجوم کے باہر ہی ہوتی ہے۔ کونسے ہجوم نے انسانی تاریخ میں آج تک کوئی تبدیلی لائی ہے؟ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہجوم۔سے باہر رہ کر تبدیلی ہمیشہ نظریاتی انقلابیوں کا خاصا رہا ہے۔
روم کے خلاف اسپارٹیکس کی بغاوت کوئی ہجوم تھی کیا؟
سقراط کو کیا ہجوم نے سقراط بنایا؟
افلاطون نے کیا ہجوم کو اپنی مثالی ریاست کی ذمہ داریاں سونپنے کی بات کی؟
یورپ میں کیا ہجوم نے چرچ کے اجارہ داری کے خلاف بغاوت کی؟
کیا ہجوم نے انقلاب فرانس برپا کیا؟
کیا لینن کو ہجوم نے لیڈ کیا؟
کیا کیوبا میں جدوجہد ایک بڑے ہجوم نے شروع کیا تھا؟
کیا ویتنام میں جنرل گیاپ کسی ہجوم کا نام تھا؟
کیا فینن کی افتادگان خاک میں ہجوم کو ہی دیسی کا نجات دہندہ قرار دیا گیا ہے؟
ہجوم کبھی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتا، فیصلہ کن کردار نظریہ کی بنیاد پر انقلابی ادا کرتے ہیں جو ہجوم کے خول سے باہر نکلتے ہیں۔
نواب مری نے ہجوم سے خود کو دور رکھ کر ایک تحریک کو منظم کیا۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور شہیدحمید شاہین جیسے انقلابیوں نے بی ایس او کو ہجوم بنانے کی بجائے نظریئے کی بنیاد پر برقرار رکھا اور بلوچ نوجوانوں کو قومی شعور سے لیس کیا۔ اگر وہ خود بھی ہجوم کا حصہ بن جاتے تو آج وہ بھی بی ایس او کے دیگر چیرمین کی طرح ہجوم میں گم جاتے لیکن انہوں نے خود کو اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو ہجوم سے باہر نکال کر نظریہ ان کے حوالے کیا۔
آج بلوچ نوجوان ہجوم کو اگر کمفرٹ زون سمجھتا ہے تب وہ یہ بھی جان لے کہ اس طرح وہ تاریخی طور پر خودکشی کا مرتکب ہورہا ہے کیونکہ اندرون ہجوم وہ کوئی بھی کردار ادا نہیں کرپائیگا۔ اگر کردار ادا کرنا ہے تو اس کے لیے نظریہ لازم ہے اور نظریہ کے لیے ہجوم سے باہر نکلنا ضروری ہے۔
کامیابی کے لیے نظریہ زیادہ معنی رکھتا ہے کیونکہ کامریڈ لینن کے بقول انقلاب وہاں آتا ہے جہاں انقلابی نظریہ وجود رکھتا ہے، بغیر انقلابی نظریہ کے کوئی انقلاب نہیں آسکتا۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔