کوئٹہ: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وفد کا لاپتہ افراد کے حوالے سے احتجاجی کیمپ کا دورہ

180

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے وفد نے آئی اے رحمان کی قیادت میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاج کیمپ کا دورہ کیا جہاں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل، مہیم خان بلوچ، انسانی حقوق کے کارکن حوران بلوچ سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کی اور ان کے لاپتہ پیاروں کے حوالے سے تفصیلات لیے گئے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کے پامالیوں کے حوالے گفتگو کی گئی۔

ایچ آر سی پی کے رہنماؤں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملکر دلخراش باتیں کو سننے کو ملی، ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ پریس کلبوں کے سامنے مظاہروں سمیت لانگ مارچ کیا لیکن تاحال ان کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔

رہنماؤں نے کہا کہ انکوائری کمیشن یکم مارچ 2011میں بنا اور اب تک چھ ہزار کیسز کمیشن کے پاس آئے، اب ہر مہینے جو رپورٹ دیا جاتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ 60افراد ریکور کیے گئے جس سے گماں ہوتا ہے کہ پرانے کیسز کو ملاکر بیان جاری کیا جاتا ہے کہ اتنے افراد بازیاب کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں جب تک اس حوالے سے کھل کر آواز نہیں اٹھاتی ہے اس وقت تک خاص پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملے گا اور لاپتہ افراد کے لواحقین صرف احتجاج کرتے رہینگے اور فہرستیں بناتے رہینگے۔

ایکٹوسٹس کے ساتھ بھی حکومتی اداروں کا رویہ متشددانہ ہے، بہت سے ایکٹوسٹس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ہیں

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک لانگ مارچ کے دوران وی بی ایم پی کے کارکنان بلکل پرامن رہے لیکن آج اسی وی بی ایم پی کو این او سی لینے کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے جبکہ نوٹس کے حصول کے لیے جب ہم نے متعلقہ افراد سے رجوع کیا تو ہمارے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں جو بھی افراد لاپتہ ہے ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اگر وہ مجرم بھی ہے تو عدالتیں انہیں سزا دے، قانون کے تحت نوے دن سے زیادہ کسی شخص کو ادارے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ہیں لیکن یہاں ایسے افراد بھی ہے جن کو اٹھارہ سالوں سے لاپتہ کیا جاچکا ہے۔پاکستانی ادارے خود ہی اپنے آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں لیکن الزامات ہم پر لگاتے ہیں۔

احتجاجی کیمپ میں وی ایم پی اور بی ایچ آر او کے رہنماؤں سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین بڑی تعداد میں موجود تھے۔

انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ جو کمیشن بنائی گئی اس کی کارکردگی مایوس کن ہے جس کا اظہار سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی کرچکے ہیں، کمیشن کی جانب سے رہائی پانے والے افراد کے لواحقین کو بھی نوٹفکیشن جاری کی جاتی ہے کہ آپ اپنے کیس کے سلسلے میں پیش ہوں، کمیشن کو معلوم ہی نہیں کون بازیاب ہوا ہے اور کون لاپتہ ہے۔ اس طرح کی کمیشن سے لاپتہ افراد کے لواحقین کسی قسم کی امید نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی قونصلیٹ حملے اور گوادر میں ہوٹل کے حملہ آوروں کو لاپتہ افراد سے ملاکر لاپتہ افراد کے کیس کو مبہم بنانے کی کوشش کی گئی جبکہ وزیر داخلہ ضیاء لانگو کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا گیا کہ لاپتہ افراد میں سے کئی ایران، افغانستان اور دیگر ممالک میں مقیم ہے لیکن آج تک ایک نام بھی ثبوتوں کے ساتھ سامنے نہیں لاسکیں کہ لاپتہ افراد میں سے کوئی باہر ملک میں ہے۔

لواحقین نے کہا کہ بلوچستان میں مکمل طور پر میڈیا بلیک آؤٹ ہے، کسی وزیر کا کتا مر جائے بھی تو ہیڈلائن بن جاتی ہے لیکن بلوچستان لاپتہ ہونے افراد کے لواحقین کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔

یاد رہے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک دہائی کے زائد عرصے سے احتجاج جاری ہے جبکہ آج احتجاجی کیمپ کو 3690دن مکمل ہوگئے۔