22 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل بلوچستان کاssd درالحکومت کوئٹہ پانی کی قلت کے سنگین خطرے سے دوچارہے۔ زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرنے کے باعث شہر کے کئی علاقوں میں زمین میں دراڑیں پڑ رہی ہیں ، شہرسالانہ 10 سینٹی میٹر کی رفتار سے نیچے دھنس رہا ہے
چئیرمین شعبہ سیسمالوجی اینڈ ارتھ کوئیک اور پروفیسر شعبہ جیالوجی جامعہ بلوچستان کوئٹہ ڈاکٹر دین محمد نے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کی آمد نے بھی کوئٹہ کے پانی پر بہت بوجھ ڈالا ہے، پچھلی صدی سے اب تک ہم بہت سارا پانی نکال چکے ہیں جس کے خطرناک اثرات اب نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کولاروڈو یو ایس اے اور بوسٹن یونیورسٹی یو ایس کی مدد سے ہم نے کوئٹہ میں جدید ٹیکنالوجی کے جی پی ایس لگائے ہیں جس کی مدد سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ کوئٹہ کی زمین نیچے دھنس رہی ہے، سیٹلائٹ سے جو ثبوت ملے ہیں اس کے مطابق واٹر ٹیبلز 3 سے 4 میٹر فی سال نیچے جارہا ہے جو اس تحقیق کو ثابت کرتی ہے۔
ڈاکٹردین محمد کا کہنا ہے کہ گاہی خان چوک پر واقع ورکرز ویلفیئر بورڈ کے اسپتال میں افتتاح کے فوری بعد دراڑیں پڑ گئیں اور ناقابل استعمال ہوگیا لیکن اب ورکرز ویلفیئر بورڈ کے بوائز اسکول میں بھی تیزی سے دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں، خطرے کی بات یہ ہے کہ اسکول میں سینکڑوں بچے زیر تعلیم ہیں، محکمہ تعلیم اور اسکول انتظامیہ کی جانب سے خستہ حال اسکول کو خالی نہیں کرایا۔
ورکرز ویلفیئر بورڈ کے بوائزاسکول میں زیر تعلیم بچوں نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ وہ اسکول میں پڑھتے وقت خوف محسوس کرتے ہیں، محکمہ تعلیم اور انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے یہ عمارت کسی وقت مہندم ہوسکتی ہے لیکن ان کی زندگیوں کومحفوظ بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا کیونکہ یہاں کسی وزیر، مشیر یا بیوروکریٹ کے بچے نہیں پڑھتے اس لیے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
ماہر ارضیات ڈاکٹر دین محمد کا کہنا ہے کہ10 سینٹی میٹر فی سال کے حساب سے سینٹرل پارٹ آف ویلی زمین نیچے جارہی ہے،شمال سےجنوب تک شہر میں 7 سے 8 مقامات پر دراڑیں پڑچکی ہیں، زمین دھنسے کی وجہ سے دراڑیں آہستہ آہستہ شہری علاقوں کا رخ کررہی ہیں جس کی وجہ سے کوئٹہ کے باسی تشویش اور خوف میں مبتلا ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف کوئٹہ بلکہ پشین، قلعہ عبداللہ، مستونگ اور قلات کے شہریوں پر بھی خطرہ منڈلا رہا ہے صرف 7 سال میں 56 سینٹی میٹر زمین نیچے جاچکی ہے، بعض جگہوں پر دراڑیں بہت واضح ہیں، گزشتہ سال پشین اور قلعہ عبداللہ میں بارشوں کے بعد زمین میں گہری دراڑیں پڑ گئیں، لمڑان، کلی حاجی عبداللہ اور کلی عبدالرؤف کے دیہاتوں میں ڈھائی کلومیٹر دراڑ سے 50 سے زائد گھر بھی گرگئے ۔
واسا حکام کے مطابق کوئٹہ میں ڈھائی ہزار سے زائد سرکاری اور نجی ٹیوب ویل ہیں، جہاں یومیہ ضرورت کا 94 فیصد یعنی 6 کروڑگیلن سے زائد پانی ٹیوب ویلوں کی مدد سے زمین سے نکالا جارہا ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح ماہانہ ایک سے ڈیڑھ فٹ گر رہی ہے، بعض مقامات پر سطح ایک ہزار فٹ تک گرچکی ہے۔
سال 1935 میں کوئٹہ میں تباہ کن زلزلہ آیا جس کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس زلزلے سے مستونگ، لورالائی، قلات ، پشین اور چمن کے علاقے بھی متاثر ہوئے تھے، ہولناک زلزلے میں نہ صرف کوئٹہ شہر مکمل تباہ ہوا بلکہ 35 ہزار سے زائد لوگ لقمہ اجل بھی بنے، ڈاکٹر دین محمد کے مطابق بڑے زلزلے سو سال بعد دوبارہ آتے ہیں، کوئٹہ کے قیامت خیز زلزلے کو 70 سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ 1934 میں نیپال میں بھی بڑا زلزلہ آیا تھا اور اب 2015 میں وہ زلزلہ دوبارہ آیا، ریسرچ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کوئٹہ میں بڑے زلزلے آنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ کوئٹہ سے قلات تک کے علاقے فالٹ لائن پر واقع ہیں جس پر انرجی لوڈ مسلسل پڑھنے سے تباہ کن زلزلے کے خطرات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے ۔
انیس سو پینتیس کو آنے والے زلزلے کے دو سال بعد انگریز حکومت نے بلڈنگ کوڈ رائج کیا، اس کوڈ کے تحت شہر میں عمارت کی حد اونچائی 30 فٹ جبکہ ڈھانچے اور خام مال کے استعمال میں بھی بلڈنگ کوڈ کو مد نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی لیکن 84 سال بعد شہریوں کو شائد ماضی یاد نہ رہا اور وہ تعمیرات کی دوڑ میں تمام قواعد بھول کر بلندو بالا غیرقانونی عمارتیں تعمیر کررہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ حساس زون پر واقع ہونے کے باوجود شہر میں بلڈنگ کوڈ پر عمل درآمد نہیں ہورہا جو کسی بھی وقت بڑے المیہ کا سبب بن سکتاہے ۔
سابق سیکریٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ شیخ نواز احمد کے مطابق بلوچستان میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں ان بارشوں کا بھی 80 فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے، زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لئے صوبے میں ڈیلے ایکشن ڈیمز کی تعمیر اور واٹر پالیسی بنانے کی بے حد ضرورت ہے۔ بصورت دیگر صوبہ بلوچستان صحرا میں تبدیل ہوجائے گا۔
آبی ماہر کرنل اشفاق کے مطابق 54 سالوں میں کوئی واٹر ریسورس نہیں لگایا گیا،ہم آج جو پانی استعمال کررہے ہیں یہ ہماری اگلی نسل کا ہے جو شاید ابھی تک آئی بھی نہیں ہیں ، اب تک بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کے لئے حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا، اگر پانی کی سطح کو اوپر نہیں لایا گیا توآئندہ چند برس میں وادی کوئٹہ اور دیگر اضلاع کے لوگ ملک کے دیگر علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوں گے ۔
ڈائریکٹرجنرل زرعی تحقیقاتی ادارہ ڈاکٹر جاوید ترین کا اس حوالے کہنا ہے کہ بلوچستان میں زراعت سے منسلک زمینداروں اور کسانوں کو آب باشی کے جدید طریقوں اور ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا، روایتی طرز آبپاشی سے پانی بہت زیادہ ضائع ہورہا ہے ہم مزید پانی کے ضیاع کے متحمل نہیں ہوسکتے، ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں اور بھی بہت سے ممالک ہیں جو پانی کے مسائل سے نبردآزما ہیں، جن میں آسٹریلیا اور امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا سہرفرست ہیں۔
بلوچستان سے زیادہ خشک ہونے کے باوجود وہ ہم سے زیادہ پیداوار حاصل کررہے ہیں۔جون 2016 کو عالمی بینک کی جانب سے بلوچستان میں آبی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت بلوچستان کو 20 کروڑ ڈالر گرانٹ کی منظوری دی گئی تھی تاہم عدم پیشرفت اور فنڈز کی تقسیم میں بدانتظامی کے باعث عالمی بینک بلوچستان میں آبی وسائل کے انتظام اور ترقی کا منصوبہ روک دیا ۔
جنوری 2019 کو حکومت بلوچستان اور ایشیائی ترقی بینک کے مابین بلوچستان واٹر ریسورسز ڈویلپمنٹ سیکٹر پروجیکٹ کے تحت معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ معاہدے کے تحت ایشائی ترقیاتی بینک بلوچستان واٹر ریسورسز ڈویلمپنٹ پروجیکٹ پر عملدرآمد کے لیے آسان شرائط پر 100 ملین ڈالر قرضہ اور حکومت جاپان 5 ملین ڈالر امداد فراہم کرے گی جبکہ حکومت بلوچستان نے بھی اس منصوبے میں شراکت داری کی مد میں 4 ارب روپے مختص کیے ہیں، یہ منصوبہ5 سال کی مدت میں مکمل ہوگا، منصوبے کے تحت بلوچستان کے دو بڑے سیلابی دریاؤں جو کہ ژوب ڈویژن کے اضلاع قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، قلات ڈویژن کے اضلاع، خضدار،سوراب اور نصیر آباد ڈویژن کے ضلع جھل مگسی سے گزرتے ہیں، ان کے سیلابی پانی کو استعمال میں لایا جاسکے گا۔
ماہر ارضیات ڈاکٹر دین محمد اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کوئٹہ اور صوبے کے دوسرے علاقوں میں بغیر لائسنس کے کسی بھی صورت بور لگانے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے ، پانی کے بچاؤ ہی میں زندگی کا تحفظ ہے اور آنے والی نسلوں کی بہتر زندگی کے لئے ہمیں اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی، نہ صرف زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کے لئے حکومتی سطح پر خاطر خواہ اقدامات کرنا ہونگے۔